عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے یہ بڑی سخت غلطی دیدہ دلیری اوردریدہ دہنی ہے اس سے بچنا اورفتویٰ میں احتیاط برتنا لازم ہے اگر کسی میں بہت سی وجہیں کفر کی ہوں اور وہ دعویٰ اسلام کارکھے تو اس کو کافر نہ کہا جائے گا۔ اگر بہت سی روایتوں کے بموجب کفر کا حکم لگتا ہو اور ایک روایت سے کفر نہ آتا ہو تو اس کو مسلمان ہی کہنا چاہیے۔ ملا علی قاریؒ نے فقہ اکبر ص۱۹۷ میں لکھا ہے ’’علما نے ذکر کیا ہے جبکہ مسئلہ متعلق بہ کفر میں ننانوے احتما ل کفر کے ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہوتو مفتی اورقاضی کو ایک وجہ سے اسلام پر فتوی دینا چاہئے کیونکہ ہزار کافروں کے قتل نہ کرنے کی غلطی بہت ہلکی ہے ایک مسلمان کے قتل کرنے کی غلطی سے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ کسی نفس کے قتل کرنے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ اگر قاتل کے ارادے میں عدم کفرکا احتمال ہو تو وہ عنداللہ مومن ہے اگر اس کی مراد کوئی اور دوسری وجہ ہوموجب کفر ہے تو عند اللہ کافر ہے اور مفتی کافتویٰ اس کے اسلام پر بے کار ہے لیکن ایسے آدمی کو (یعنی کفرکا ارتکاب کرنے والے) کو تجدید ایمان وتجدیدنکاح کرناچاہئے اور اپنے آپ کو سچا مومن اورمسلمان جانے۔اگر کوئی شخص کفر کا کلمہ کہے اورپھر انکار کردے (کر جائے) تو یہ بھی ایک قسم کی توبہ ہے اور اس کو بھی کافر کہنا جائزنہیں ہے۔ وصیت: ایمان سے زیادہ کوئی نعمت نہیں پس اس کی محافظت ہر وقت واجب اورا س کی زینت وترقی کیلئے ہر وقت گناہوں سے بچنا اورعبادت میں مصروف رہنا ضروری ہے اور یہ نہ سوچے کہ پھر کسی وقت توبہ کرلی جائے گی کیونکہ کسی کو کیا معلوم کہ کس وقت مو ت آجائے اور توبہ کا وقت وتوفیق پھر اس کو نصیب ہویا نہ ہو۔ اس لئے ایمان کی حفاظت ہر