عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا) اور جس عورت کو نفاس کی عادت مقرر ہے اس کے لئے عادتِ معمولہ کے دنوں تک نفاس ہے اور باقی استحاضہ، مثلاً کسی کی عادت تیس دن کے نفاس کی ہے اور خون پچاس دن جاری رہاتو تیس دن نفاس کے ہیں اور باقی بیس دن استحاضہ ہے (اور اگر چالیس دن سے کم رہا تو عادت بدل جانے کا حکم ہوگا اور وہ سب نفاس کہلائے گا) چالیس دن کے درمیان میں جو دو خونوں کے درمیان میں طہر (پاکی) آجائے وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نفاس سمجھا جائے گا، اگر چہ پندرہ دن یا اس سے بھی زیادہ ہو اسی پر فتویٰ ہے صاحبین کے نزدیک پندرہ دن یا اس سے زیادہ پاک رہے تو ہو طہر ہے اور اس کے بعد جو خون آئے وہ حیض ہے، اور اگر پندرہ دن سے کم وقفہ ہو تو وہ بالاتفاق نفاس ہے، نفاس کی عادت اس کے ایک بار خلاف ہونے سے امام ابو یوسفؒ کے نزدیک بدل جاتی ہے، امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ایک دفعہ کے خلاف ہونے سے وہی پہلی عادت باقی رہے گی اور دو دفعہ خلاف ہونے میں عادت بدل جائے گی، اس کا فائدہ جب ہوگا جب خون آئے اور وہ چالیس دن سے زیادہ ہو جائے تو وہ عادت پر قیاس کرے مثلاً جس عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد بیس روز خون آنے کی عادت تھی ایک دفعہ خلافِ عادت بائیس روز خون آیا اور پھر پاک رہ کر دوبارہ خون آنا شروع ہوا یہاں تک کہ چالیس دن سے زیادہ ہوگیا تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک اس صورت میں عادت بدل جائے گی اور بائیس روز نفاس کے ہوں گے اور طرفین کے نزدیک وہی قدیم عادت یعنی بیس دن نفاس ہوگا اور باقی استحاضہ ہوگا، فتویٰ امام ابو یوسفؒ کے قول پر ہے۔ استحاضہ کا بیان: