عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عام کتبِ متون میں ہے لیکن پہلے قول کی بِنا پر عدمِ جواز سے مراد عدمِ صحت ہے اسی لئے ہدایہ میں کہا ہے کہ جس شخص نے مغرب کی نماز راستہ میں پڑھ لی وہ امام ابو حنیفہؒ و امام محمد ؒ کے نزدیک جب تک فجر طلوع نہ کرے جائز نہیں ہوگی اھ پس وہ نماز فاسد ہوگی اور اس کا فسا د موقوف ہوگا اور جب تک صبح صادق طلوع نہ ہو اس کااعادہ واجب ہے ( اگر اعادہ نہ کیا تو طلوع ِ فجر کے بعد وہ نماز صحیح ہوجائی گی لیکن ترکِ واجب کا گناہ ہوگا جس سے توبہ کرنا لازمی ہے کمامر، مؤلف) اور دوسرے قول کی بنا پر وہ نماز حلال (جائز) نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ کراہتِ تحریمہ کے ساتھ ادا ہوئی ہے پس اس کا اعادہ مطلق طور پر واجب ہے جیسا کہ یہ ہر اس نماز کے لئے حکم ہے جو کراہتِ تحریمہ کے ساتھ ادا ہوئی ہو ۱۰؎(پس اگر اعادہ نہ کیا اور فجر طلوع ہوگئی تو قولِ ثانی کی بنا پر اب بھی اس کا اعادہ واجب ہے ، مؤلف) صاحبِ بحرالرائق اس قول ثانی ہی کی طرف گیا ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے ، جان لیجئے کہ مشائخ نے اپنی کتب میں عدمِ جواز کی تصریح کی ہے اور اس لفظ سے عدمِ صحت کا وہم ہوتا ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے ۱؎ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ا س کا فساد موقوف ہے جس کا اثر ثانی الحال میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ مسئلہ ترتیب میں گزرچکا ہے جیسا کہ عنایہ میں ہے اور یہ صریح ہے کہ عدمِ جواز سے مراد عدمِ صحت ہے عدم حل نہیں ہے برخلاف اس کے جو صاحب النحر نے سمجھا ہے اور پوری تفصیل بحرالرائق کے حاشیہ منحۃ الخالق میں ہے ۲؎ مزدلفہ اور عرفہ کی جمع بین الصلواتین میں فرق : مزدلفہ میں نمازِ مغرب و عشاء اکٹھا پڑھنے اور عرفات میں ظہر و عصر اکٹھا