عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گیا تو اس کی وہ مغرب کی نماز صحیح ہو جائے گی ۴؎ لیکن بحر میں محیط سے اور شرح اللباب میں منتقیٰ سے منقو ل ہے کہ اگر کسی شخص نے مزدلفہ سے آگے گزر کران دونوں نمازوں کو ادا کیا تو جائز ہے ،شرح اللباب میں اس کے بعد مذکور ہے کہ یہ جمہور کے خلاف ہے ۵؎۔ (۵) وقت ، ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کا وقت عشا کا وقت ہے پس اگر کوئی شخض عشاکی وقت سے پہلے مزدلفہ میں پہنچ جائے تو جب تک عشا کا وقت داخل نہ ہو جائے مغرب کی نماز نہ پڑھے ۶؎ اس بیان میں زمانہ اور وقت کو الگ الگ شرط بیان کیا ہے اس میں فرق یہ ہے کہ زمانہ وقت سے عام ہے ۷؎ (۶) دونوں نمازوں کو ترتیب وار پڑھنا ، پس اگر کسی نے مزدلفہ سے پہلے عشاء کی نماز پڑھی پھر مغرب کی نماز پڑھی تو وہ عشاء کی نماز دوبارہ پڑھے تاکہ مغرب کی نماز کے بعد واقع ہو، اگر اس نے عشاء کی نماز کا اعادہ نہ کیا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو اس کی عشاء کی نماز جائز ودرست ہوجائے گی اور اب اس سے ترتیب ساقط ہوجائے گی ۸؎ (تنبیہ ) : جاننا چاہئے کہ نماز مغرب وعشا کو مزدلفہ تک مؤخر کرنا واجب ہے جیسا کہ امام بزدویؒ نے اس کی تصریح کی ہے اور بعض مشائخ اسی کی طرف مائل ہیں اور امام ابن الہمام نے اسی کو اختیار کیا ہے اور بعض فقہا فرائض میں ترتیب کی مانند اس کی فرضیت کے قائل ہیں اور اکثر شارحین اسی طرف گئے ہیں اور اسی طرح ان دونوں نمازوں میں ترتیب اور نماز مغربِ کو وقتِ عشا تک مؤخر کرنا بھی علی اختلاف الاقوال واجب یا فرض ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ فرض سے مراد فرضِ عملی ہے ۹؎ فرضِ اعتقادی مراد نہیں ، ان ہر دو قول کی بنا پر اگر کوئی شخص عشا کی نماز مغرب سے پہلے پڑھ لے گا تو جائز نہیں ہوگی جیسا کہ