عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) اور اگر آٹھویں ذی الحجہ کو لوگوں نے گواہی دی کہ آج نویں ذی الحجہ ہے اور اس وقت لوگ منیٰ میں ہیں تو دیکھا جائے گا کہ اتنا وقت ہے جس میں امام تمام یا اکثر لوگوں کے ساتھ دن میں کسی وقت عرفات پہنچ کر و قوف کر سکتا ہے تو قیا سًاواستحساناً ان کی گواہی قبول کی جائے گی کیونکہ وہ وقوف عرفات پرقادر ہیں جس کے لئے وہ ماموربہ ہیں اور اس صورت میں قیاس اور استحسان دونوں کے مطابق دو عادل آدمیوں کی گواہی قبول کی جائیگی پس اگر ان لوگوں نے اس رات تک وقوف نہ کیا تو ان کاحج فوت ہو جائے گا پس ان کو عمرہ کے افعال اداکر کے احرام سے باہر ہونا چاہئے اوراگر امام کو تمام یا اکثر لوگوں کے ساتھ دن میں نہیں بلکہ رات کے کسی حصہ میں وقوف عرفہ کرناممکن ہو تب بھی قیاسًاواستحسانایہی حکم ہے حتی کہ اگر وہ اس رات میں وقوف نہیں کریں گے تو ان کا وقوف فوت ہوجائے گالیکن اس صورت میں استحساناً دو آدمیوں کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بلکہ ایک بڑی جماعت کا گواہی دیناضروری ہے لیکن قیاس کی رو سے اس صورت میں بھی دوعادل آدمیوں کی گواہی قبول کی جائے گی اور اگر رات میں بھی امام کو اکثر لوگوں کے ساتھ وقوف عرفہ ممکن نہ ہو صرف امام اوربعض لوگ جو اس کے ساتھ جلدی کر کے پہنچ سکتے اور وقوف کر سکتے ہوں پیدل چلنے والوں اور اہل و عیال و بھاری سامان والوں کے لئے ا س رات میں پہنچ کروقوف عرفہ کرنا ممکن نہ ہو تو استحساناً ان لوگوں کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور امام لوگوں کو حکم دے گا کہ اگلے روززوال کے بعدوقوف عرفہ کریں پس اس بارے میں عام لوگوں کی اکثریت کے وقوف پر قادر ہونے کا اعتبار ہے اقلیت کے قادر ہونے کا اعتبار نہیں ہے (خلاصہ یہ ہے کہ جس صورت میں ان گواہوں کی گواہی تسلیم کرنے سے اکثر لوگوں کا حج فوت ہوتا ہو ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اگر چہ