عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں تصریح کی ہے کہ طواف کا سعی سے پہلے ادا ہونا صحتِ سعی کے لئے شرط ہے اس سے معلوم ہوا کہ سعی کا طواف کے بعد ہونا واجب ہے ۶؎ پس سعی کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ پورا طواف یا اس کے اکثر چکر کے بعد سعی واقع ہو خواہ وہ طواف نفلی ہی ہو پس اگر کسی شخص نے بالکل طواف نہیں کیا یا اس کا اکثر حصہ یعنی چار چکر ادا کرنے سے پہلے سعی کی تو اس کی سعی صحیح نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طواف کا رکن ادا نہیں کیا اور اگر طواف کے چار چکر ادا کرنے کے بعد سعی کی تو صحیح ہوجائے گی ۷؎ (۳) حج یا عمرہ کے احرام کا سعی پر مقدم ہونا پس اگر کوئی شخص احرام سے پہلے سعی کرے گا تو جائز ودرست نہیں ہوگی اگرچہ طواف کے بعدہی کی ہو اس لئے کہ سعی حج کے واجبات میں سے ہے اور احرام کے شرائط میں سے ہے اور واجب ورکن(فرض ) وغیر ہما شرط کے بغیر صحیح نہیں ہوتے لیکن احرام کا حج کے ابتدا میں منعقد ہوجانے کے بعد سعی تک باقی رہنا ضروری نہیں ہے پس اگر حج کی سعی وقوف ِ عرفات سے پہلے (یعنی طوافِ قدوم کے بعد ۸؎) کرے تو احرام کا موجود ہونا شرط ہے خواہ وہ حاجی قارن ہو یا متمتع یا مفرد ہو ، اگر حج کی سعی وقوفِ عرفات کے بعد (یعنی طوافِ زیارت کے بعد ۹؎ ) کرے تو اب احرام کا باقی رہنا شرط نہیں ہے کیونکہ اب اس کو احرام سے حلال ہونے (باہر آنے ) کے بعد سعی کرنا جائز ہے بلکہ اب مسنون یہی ہے کہ احرام سے فارغ ہوکر سعی کرے اگرچہ اس کے لئے حلق سے پہلے طواف کرنا اور اس کے بعد سعی کرنا جائز ہے لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے اسلئے کہ طواف ِ زیات وسعی کا رمی و حلق کے بعد ہونا مسنون ہے اور اگر عمرہ کی سعی ہے تو سعی کے لئے احرام کا موجود ہونا شرط نہیں ہے اسلئے کہ احرام عمرہ کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ ابتداء میں احرام کا ہونا عمرہ کارکن ہے جیسا کہ عمرہ کے بیان میں