عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس لئے ہے کہ نماز کی ادائیگی ہر جگہ اور ہر وقت کثرت سے ہوسکتی ہے اور طواف کا ادا ہونا مکہ معظمہ ہی میں مخصوص ومتعین ہے ۳؎ اور اہلِ مکہ کے لئے نفلی نماز کا نفلی طواف سے افضل ہونا اس زمانہ کے لئے مخصوص ہونا چاہئے جبکہ حج کا موسم ہوتا ہے کہ آفاقی حاجیوں کے لئے مطاف میں وسعت وگنجائش ہوجائے ورنہ موسمِ حج کے علاوہ دیگر ایام میں نفلی طواف کا نفلی نماز سے افضل ہونا مطلق طور پر ہر شخص کے حق میں ہے خواہ وہ شخص مکی ہو یا آفاقی ۴؎ لیکن فتاویٰ والوالجیہ میں اس کے برخلاف حکم ہے اس میں یہ حکم اس طرح منصوص ہے کہ اہل مکہ کے لے نماز طواف سے (مطلق طور پرہرزمانہ ) افضل ہے اور آفاقیوں کے لئے (مطلق طور پرہر زمانہ میں ) طواف افضل ہے کیونکہ نماز فی نفسہٖ طواف سے افضل ہے اس لئے کہ رسول اﷲ ﷺ نے بیت اﷲ کے طواف کو نماز سے تشبیہ دی ہے لیکن آفاقیوں کے لئے نفلی طواف کے افضل ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر یہ لوگ نماز میں مشغول ہوں گے تو طواف فوت ہوجائے گا (یعنی وہ طواف نہ کرسکیں گے ) او ر اس کا تدارک ( کسی اور جگہ ) ممکن نہیں ہے پس جس چیز کا تدارک ممکن نہ ہو اس میں مشغول ہونا اولیٰ ہے اھ ۵؎ اور کنز الدقائق کے حاشیہ شرح المرشدی میں ہے کہ مکی کے حق میں نفلی نماز طواف سے افضل ہونے کا جو قول ہے اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ مثلاً دورکعت نفل پڑھنا ایک نفلی طواف کرنے سے افضل ہے اس لئے کہ طواف سات چکروں اور دوگانہ پر مشتمل ہے بلکہ ان حضرات کے قول ’’طواف افضل ہے یا نماز ‘‘ کواس مفہوم پر محمول کرنا چاہئے کہ جتنے وقت میں ایک طواف اد ا کیا جاتا ہے اس قدر وقت تک طواف طواف میں مشغول رہنا افضل ہے یا نماز میں مشغول رہنا افضل ہے پس آگاہ رہئے اھ ۶؎ اور اس کی نظیر علامہ قاضی ابراہیم بن ظہیرب مکی کا جواب ہے جبکہ ان