عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس دوگانہ کی تلافی نہیں ہوتی کیونکہ جب تک ان دورکعتوں کو ادا نہیں کرے گا اس کے ذمہ باقی رہیں گی اس لئے کہ ان کی ادائیگی کسی زمانے اور مکان کیساتھ مخصوص نہیں ہے، لیکن حدادی نے قدوری کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ بعض کتبِ مناسک میں ہے کہ ان کے ترک پر دم واجب ہوگا اور البحر الزاخر کی عبارت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ اس میں ہے کہ ’’یہ دورکعتیں واجب ہیں اگر ان کو ترک کرے گا تودم واجب ہوگا اور اکثر کتبِ مناسک میں یہ ہے کہ اگران دورکعتوں کو ترک کرے گا تو اس پر دم واجب نہیں ہوگا اور شوافع نے بھی یہی کہا ہے اور بعض نے کہا کہ دم لازم ہوگا اھ‘‘ اور شاید یہ ترک موت کے ساتھ فوت ہونے پر محمول ہے پس اس پر وصیت کرنا واجب ہے اور وارثوں کے لئے اس کی جزا کا ادا کرنا مستحب ہے ۳؎ (یعنی جبکہ اس نے وصیت نہ کی ہو لیکن اگر کسی نے مرتے دم تک دوگانہ طواف ادا نہ کیا تو اس پر مرتے وقت کفارہ نماز کی ادائیگی کے لئے وصیت کرنا واجب ہونا چاہئے جیسا کہ دیگر فرض و واجب نمازوں کے کفارہ کے لئے وصیت کرنا واجب ہوتا ہے اور وہ کفارہ اس کے تہائی مال ِ متروکہ میں سے ادا کیا جائے اور ااگر اس نے کچھ وصیت نہ کی اور اس کے وارثوں نے تبرعاً ادا کردیا تو انشاء اﷲ ادا ہوجائے گا، واﷲ اعلم بالصواب، مؤلف) خلاصہ یہ ہے کہ مشائخ متاخرین نے دم لاز م نہ ہونے کی علت میں اختلاف کیا ہے بعض نے اس کی تعلیل کی ہے کہ طواف کی دورکعتیں حج اور عمرہ کے مخصوصات میں سے نہیں ہیں اور دم اس واجب کے ترک پر لازم آتا ہے جو حج یا عمرہ کیساتھ مخصوص ہو اور بعض دوسروں نے یہ تعلیل کی ہے کہ دوگانہ طواف کی ادائیگی کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیںہے اور تمام عمر میں اس کا فوت ہونا متصور نہیں ہے پس اس دوسری تعلیل کی بِنا پر جب وہ شخص مرنے کے قریب پہنچے اس پر دم کی