عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بعد وقوفِ عرفات اس کے وقت میں حاصل نہ ہواتو طوافِ قدوم کی سنّت ادا نہ ہوگی کیونکہ اس کے بعد اس کو وقوفِ عرفات حاصل نہیں ہو ا پس اس کا یہ طواف بے موقع واقع ہوا ہے ۶؎۔ (۶) طوافِ قدوم میں بالاصالۃ اس طواف کی وجہ سے اضطباع ورمل اور اس کے بعد سعی نہیں ہے لیکن اگر کوئی مفرد یا قارن حاجی حج کی سعی کو اسکے اصلی وقت پر مقدم کرتے ہوئے طوافِ قدوم کے بعد کرنا چاہے تو اس طواف میں اضطباع کرے اور پہلے تین چکروں میں رمل بھی کرے، حج کی سعی کا اصلی وقت طوافِ زیارت کے بعد ہے لیکن ہجوم کے خوف اور قربانی کے روز افعالِ حج کی کثرت کی وجہ سے شریعتِ مقدسہ نے اس سعی کو اپنے وقت پر مقدم کرلینے کی اجازت دیدی ہے بشرطیکہ اس کو کسی طواف کے بعد ادا کیا جائے خواہ وہ طواف نفلی ہی ہو، اور اس بارے میں فقہا کا اختلاف ہے کہ آفاقی کے حق میں حج کی سعی کی تقدیم یعنی حج کے لئے عرفات کی روانگی سے پہلے کرنا افضل ہے یا تا خیر یعنی طوافِ زیارت کے بعد کرنا افضل ہے ۷؎ اور ہمارے اکثر مشائخ کے نزدیک اس کی تقدیم مطلقاً جائز ہے اور تاخیر یعنی اس کے اصلی وقت تک جو کہ طوافِ زیارت کے بعد ہے مؤخر کرنا افضل ہے خصوصاً اس شخص کے لئے جس کے لئے طوافِ قدوم مسنون نہیں ہے یعنی حجِ تمتع کرنے والے کے لئے اور مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھنے والے کے لئے وقت ِ اصلی تک مؤخر کرنا افضل ہے اور بعض کے نزدیک سعی کی تقدیم افضل ہے اور اس بارے میں بعض نے کہا کہ تقدیمِ مطلق طور پر افضل ہے اور کرمانی نے اس کی تصحیح کی ہے اور یہ امام ابو حنیفہ ؒ سے امام حسنؒ کی روایت ہے اور بعض کے نزدیک تقدیمِ سعی کاافضل ہونا خاص اس شخص کے حق میں ہے جس کے لئے طوافِ قدوم مسنون ہے، بدائع میں کہا