عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۱) خوشبو کو اس طرح پر چھونا کہ اس خوشبو کا کوئی جزو اس کے بدن سے نہ لگنے پائے مکروہ ہے کیونکہ بدن سے لگ جانے کی صورت میں ایک طرح کااستعمال کرنا ہوجائے گا بخلاف اس کے اگر صرف اس کی خوشبو اس کو لگی ہو اور صرف اس کی بُو اس سے اُڑی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۹؎ پس خوشبو کو ہاتھ سے بھی نہ چھوئے اگرچہ خوشبو لگانے کے ارادہ سے نہ بھی ہو ۱۰؎ (۱۲)ریحان اور خوشبودار پھلوں اور ہر خوشبودار نباتات کو سونگھنا اوراسی طرح اس کو مس کرنا اور عطر فروش کی دکان میں بیٹھنا اور اسی طرح خوشبو سونگھنے کی نیت سے اس شخص کیساتھ بیٹھنا جس کے پاس پھیلنے والی خوشبو ہو یہ سب امور مکروہ ہیں ۱۱؎ (ایک قابل غور بات ) یہ جو لکھا گیا ہے کہ خوشبودار پھلوں کا سونگھنا مکروہ ہے اس پر اکثر حضرات کو یہ شبہ پڑتا ہے کہ جب خوشبودار پھل کے سونگھنے سے کراہت لازم آتی ہے تو پھر اس کے کھانے سے تو ضرور جنایات لازم ہونی چاہئے جیساکہ خود خوشبو سونگھنے سے کراہت کا حکم ہے اور خوشبو کھانے کی وجہ سے سب کتابوں میں جنایات لازم ہونالکھتے ہیں، تو جاننا چاہئے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے خوشبودار چیزیں تین قسم کی ہیں اور ہر ایک قسم کا حکم الگ ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے پھلوں میں سے خوشبو آتی ہے جیسے خربوزہ ، کیلا، امرود، لیموں ، سنگترہ، نارنگی، سیب اور بعض آم جیسے مالدہ، سرولی وغیرہ لیکن فقہا نے پھل داردرختوں یا اُن کے پھلوں کو خوشبو میں شمار نہیں کیا اور نہ ان میں خوشبو کا حکم لگایا ہے ، باقی رہا یہ شبہ کہ خوشبو دار پھل کے سونگھنے کو مکروہ لکھتے ہیںتو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن چیزوں سے خوشبو آتی ہو اور وہ خوشبو کی چیزوں میں شمار نہ ہوتی ہوں ان