عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۱) اگر کسی نے کسی تلبیہ پڑھتے ہوئے شخص کو تلبیہ کے دوران میں سلام کیا تو اس کو اس کے سلام کا جواب دینا جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس کے سلام کا جواب تلبیہ کہنے کے درمیان میں نہ دے بلکہ مؤخر کرے اور جب تین بار تلبیہ پڑھ کر فارغ ہوجائے تب جواب دے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ مؤخر کرنے میں سلام کا جواب فوت ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ سلام کا جواب دینا اس پر واجب ہوچکا ہے (پس اگر یہ اندیشہ ہو کہ سلام کرنے والا چلا جائے گا تو سلام کا جواب دے دے) اور جب کوئی شخص جہری آواز سے تلبیہ پڑھ رہا ہو تو دوسرے شخص کا اس کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا اس شخص کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ اظہر یہ ہے کہ ہاں واجب ہے ۔ ۱؎ لیکن ردالمحتار وغیرہ میں ہے کہ جو شخص تلبیہ یا ذکر یا دعا میں مشغول ہو اس پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے۔ بلکہ جن مواقع میں سلام کرنا مشروع نہیں ہے ان مواقع میں سلام کا جواب دینا بھی واجب نہیں ہے ۱ھ ۲؎ (۱۲) مرد کے لئے سنت یہ ہے کہ جب بھی تلبیہ پڑھے ۔ خوب بلند آواز سے پڑھے مگر اتنی بلند آواز سے نہ کہے جس سے اس کو مشقت ہو تاکہ اس کو ضررو ضعف نہ پہنچے ۳؎ پس اگر کوئی شخص تلبیہ میں آواز بلند نہیں کرے گا تو وہ برائی کا مرتکب ہوگا لیکن اس پر کوئی جزا لازم نہیں ہوگی اور آواز کو جتنا بلند کرے پسندیدہ و بہتر ہے تاکہ انس و جن حجرو شجر ارض و نباتات وغیرہ جس چیز کو اس کے تلبیہ کی آواز پہنچے وہ اس کی گواہی دے لیکن آواز کو اس قدر بلند نہ کرے کہ اس کی آواز منقطع ہونے لگے اور خود اس کے لئے تکلیف کا باعث ہو لیکن اگر کسی شہر میں ہو تو آواز کو بلند کرنا سنت نہیں ہے کیونکہ اس میں ریا