عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کہا ہے ۳؎ (اور اگر صرف زبان سے نیت کے الفاظ کہے اور دل میں نیت بالکل مستحضر نہیں ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی نیت درست نہیں ہوگی ، مؤلف) (۳) اور اگر دل میں نیت کی اور زبان سے اس کے برخلاف الفاظ کہے تو جو نیت دل میں کی ہے اس کا اعتبار ہوگا یعنی وہی صحیح ہوگی اور زبان سے جو الفاظ دل کی نیت کے خلاف کہے ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا جیسا کہ نماز کی نیت کا حکم ہے (کیونکہ زبان سے ادا کرنا کلام ہے نیت نہیں ہے) اور یہ نیت کا حکم ہے اور تلبیہ کا بھی یہی حکم ہے پس اگر کسی نے دل میں عمرہ کی نیت کی اور تلبیہ حج کے لئے پڑھا، یا دل میں حج کی نیت کی اور تلبیہ عمرہ کے لئے پڑھا۔ یا دل میں نیت صرف ایک یعنی صرف حج یا صرف عمرہ کے لئے کی اور تلبیہ دونوں کے لئے پڑھا، یا نیت حج و عمرہ دونوں کے لئے کی اور تلبیہ دونوں میں سے کسی ایک کے لئے پڑھا تو جس کی دل میں نیت کی ہے اس کا اعتبار ہوگا ۴؎ پس اگر کسی شخص نے تلبیہ حج کے لئے پڑھا اور نیت حج و عمرہ دونوں کی تو وہ قارن ہوجائے گا ۵؎ اور ابن الہمام رحمہ اﷲ وغیرہ محققین نے کہا ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ کہنا اس شخص کے لئے احسن ہے ،جس کا دل عزم نیت پر جمع نہ ہوتا ہو لیکن جس کا عزم قلب نیت پر جمع ہوجاتا ہو اس کے لئے تمام عبادات میں زبان سے نیت کے الفاظ کہنا مستحسن نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔ ۶؎ (۴) نیت میں حج یا عمرہ یا قران کا تعین کرنا اور اسی طرح فرض کا تعین کرنا نیت کی اکملیت کے لئے ہے اور شرط نہیں ہے اس لئے مبہم اور معلق بنسک الغیر کی نیت سے احرام صحیح ہوجائے گا۔ پس اگر کوئی شخص دل سے حج یا عمرہ یا قران کی نیت کرے یا مبہم نیت کرے یعنی مطلق نسک کی نیت کرے اور اس میں حج یا عمرہ یا قرآن کا تعین نہ کرے