عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر حج و عمرہ میں سے کسی کو متعین کرنے اور اس کے ارکان میں سے کوئی فعل کرنے سے پہلے وہ حج و عمرہ سے روک دیا گیا اور وہ دم (قربانی) دے کر احرام سے باہر ہوگیا یا وقوف کا وقت فوت ہوجانے کی وجہ سے اس کا وقوف عرفات فوت ہوگیا یا اس نے وقوف سے پہلے جماع کرکے اپنے احرام کو فاسد کردیا تو ان تینوں صورتوں میں اس کا مبہم احرام عمرہ کے لئے متعین ہوجائے گا ۲؎ اس لئے کہ احرام بندھ جانے کی وجہ سے دونوں میں سے کسی ایک نسک کی قضا اس پر واجب ہوگئی تو ہمارے فقہا نے کہا کہ ہم اس چیز کو واجب قرار دیں گے جو کم ہو اور یقینی ہو اور وہ عمرہ ہے ۷؎ پس پہلی صورت میں اس پر عمرہ کی قضا واجب ہوگی۔ حج کی قضا واجب نہیں ہوگی اور دوسری صورت میں وہ عمرہ کے افعال ادا کرکے احرام سے باہر ہوجائے گا اور آئندہ سال حج کرنا اس پر لازم نہیں ہے اور تیسری صورت میں اس کو عمرہ کے افعال پورے کرنے چاہئیں اور عمرہ کی قضا بھی دینی چاہیئے۔ ۳؎ (۲) اگر کسی نے پہلے مبہم نیت سے احرام باندھا پھر دوبارہ حج کی نیت سے احرام باندھا تو پہلا احرام جو مبہم تھا عمرہ کے لئے متعین ہوجائے گا اور اگر پہلا احرام مبہم باندھا اور دوبارہ عمرہ کا احرام باندھا تو پہلا احرام حج کے لئے متعین ہوجائے گا اور اگر ان دونوں مذکورہ صورتوں میں دوسرے احرام میں بھی کوئی چیز معین نہیں کی تو وہ قارن ہوگا ۔ ۴؎ (۳) لیکن جب اپنے گھر سے حج کے ارادہ سے نکلا پھر احرام باندھا اور کوئی نیت نہ کی تو امام ابو یوسف و امام محمد رحمہما اﷲ سے روایت ہے کہ وہ اس کا حج کا احرام ہوگا کیونکہ سابقہ نیت پر عبادات کا ادا ہونا جائز ہے۔ ۵؎ اور فتاویٰ قاضی خان میں امام محمد رحمہ اﷲ سے منقول ہے کہ جب کوئی شخص حج کے ارادہ سے سفر پر نکلے اور پھر احرام باندھے اور اس وقت اس کو نیت مستحضر نہ ہو تو امام محمدؒ نے کہا کہ وہ حج کا احرام ہے اس پر امام محمدؒ سے کہا گیا