عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۵) خوشبو اور تیل لگانا یعنی احرام کی نیت کرنے سے پہلے اپنے بدن پر خوشبو لگانا خواہ وہ خوشبو ایسی ہو جس کا عین (وجود) بعد میں باقی رہ جائے مثلاً مشک یا غالیہ یا ایسی خوشبو ہو جس کا وجود باقی نہ رہے ۵؎ اور اسی طرح جو بھی تیل چاہے لگائے خواہ خوشبودار ہو یا بغیر خوشبو کا ہو اور اس بات پر فقہا کا اجماع ہے کہ احرام (کی نیت کرنے) سے پہلے ایسی خوشبو کی چیز لگانا جائز ہے جس کا وجود (جَرم) احرام باندھنے کے بعد تک باقی نہ رہے اگرچہ اس کی خوشبو احرام باندھنے کے بعد تک باقی رہے اور اسی طرح گاڑھی خوشبودار چیز جس کا وجود احرام باندھنے کے بعد تک باقی رہے جیسا کہ مشک اور غالیہ بدن پر لگانا ہمارے نزدیک ظاہر الروایت کے بموجب مکروہ نہیں ہے یہی صحیح ہے ۶؎ یہ شیخین کا مذہب ہے اور امام محمدؒ کے نزدیک ایسی خوشبو بدن پر لگانا جس کا وجود احرام باندھنے کے بعد باقی رہے مکروہ ہے۔ اور امام مالک و امام شافعی و امام زفر رحمہم اﷲ کا بھی یہی قول ہے کیونکہ وہ اس خوشبو سے احرام کی حالت میں منتفع ہوگا ۷؎ اور اس اختلاف کی وجہ سے فقہا نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ جب مشک وغیرہ جسم دار خوشبو احرام سے پہلے استعمال کرے تو عرقِ گلاب وغیرہ میں اس کو حل کرکے لگائے تاکہ وہ جسم دار نہ رہے ۸؎ اور کپڑے میں ایسی خوشبودار چیز لگانا جس کا وجود (عین) احرام کے بعد بھی باقی رہے سب کے قول کے بموجب جائز نہیں، اور یہ قول شیخین سے مروی دو روایتوں میں سے ایک روایت کے بموجب ہے ہمارے فقہا نے کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۹؎ یعنی شیخین سے کپڑے میں جسم دار خوشبو لگانے کے بارے میں دو روایتیں ہیں اور صحیح روایت یہی ہے کہ جائز نہیں ہے جیسا کہ امام محمدؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور جس خوشبو کا وجود بعد میں باقی نہ رہے اس کا استعمال بدن اور کپڑے میں بالاتفاق جائز ہے ۱۰؎ اور طرابلسی نے کہا کہ اولیٰ یہ ہے کہ