عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۸)قصد وارادہ وہ معتبر ہے جو میقات سے آگے جاتے وقت ہو نہ کہ اپنے گھر سے نکلتے وقت کا یعنی آفاقی کے لئے اپنے میقات سے آگے جانے کے بارے میں اس کے قصد وارادہ کااعتبار اپنے میقات سے آگے بڑھنے کے وقت ہوگا پس اگر میقات سے تجاوز کرتے (آگے بڑھتے ) وقت اس کا ارادہ حج یا عمرہ یا دخولِ مکہ یا دخولِ حدودِ حرم کا ہے تو اس پر میقات سے احرام باندھنا لازم ہے اور اگر اس کا ارادہ ایسا نہیں ہے بلکہ حلّ میں کسی جگہ مثلاً بستان بنی عامر وغیرہ میں کسی ضرورت کے لئے جانے کا ہے تو اس کو بلااحرام آگے جانا جائز ہے اور اس پر کچھ جزالازم نہیںہے (یعنی بلااحرام داخلِ حلّ ہونے سے اس پر کچھ لازم نہیں ہوگی، مؤلف) پس ان دونوں صورتوں میں میقات سے آگے جاتے وقت کا ارادہ معتبر ہوگا اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اگر حدودِ میقات کے تجاوز سے پہلے ہی کسی ضرورت کے لئے حدودِ حل میں جانے کا ارادہ کیا تو بدرجہ اولیٰ اس کا حکم بھی یہی ہے (یعنی اس کو بلااحرام میقات سے آگے جانا جائز ہے ) اور اپنے گھر سے نکلتے وقت اس قصد کا ہونا شرط نہیں ہے اور یہ حکم بحرالرائق کے برخلاف ہے کیونکہ بحرالرائق میں اس بات کی تائید کی ہے کہ ارادہ کا اعتبار اپنے گھر سے نکلنے کے وقت کا ہے۔ نہرالفائق میں کہاہے کہ ظاہر یہ ہے کہ اس قصد کا میقات سے مجاوزت کے وقت پایا جانا کافی ہے اور بدائع کی عبارت اس پر دلالت کرتی ہے اھ۔ البتہ میقات سے آگے چلے جانے کے بعد حل میں کسی حاجت کا قصد کرنا معتبر نہیں ہے کیونکہ مجاوزۃ یعنی میقات سے آگے جاتے وقت اس کا قصد مکہ مکرمہ کا ہے پس اب جب تک وہ کسی میقات پر واپس آکر احرام نہ باندھے اس سے دم ساقط نہیں ہوگا۔ اور جاننا چاہئے کہ حلّ سے مراد میقات کے اندر کا علاقہ یعنی حدودِ میقات اور حدودِ حرم کے درمیان کی زمین ہے اور ظاہر یہ ہے کہ کسی معین مکان کا قصد کرنا