عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شامی کے قول ’’لکن ینا فیہ قولھم ثم بدالہ دخول مکۃ الخ ‘‘یعنی فقہا کا یہ قول پھر اس کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی ضرورت لاحق ہوگئی، اس کے خلاف ہے‘‘ کے تحت کہا ہے کہ اس مسئلہ میں جو اشکال ہے وہ اس طرح دور ہوسکتا ہے کہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کو جائز کرنے والی چیز دو صورتوں میں سے ایک صورت کا پایا جانا ہے اول یہ کہ وہ کسی ضرورت کے لئے زمینِ حلّ کا قصد کرے پھر اس کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آجائے اور یہ و ہ صورت ہے جس کو کافی ولباب وبدائع میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حل میں داخل ہونا اس کا مقصدِ اول ہو اور اس کے ساتھ ہی ضمنی طور پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا بھی قصد ہو، (یعنی اصل مقصدِ سفر حلّ میں کوئی کام ہو اوراس کے ساتھ ہی بھی ارادہ ہو کہ کام سے فارغ ہوکر مکہ شریف جائے گا، مؤلف) اور یہ وہ صورت ہے جس کی طرف بحرالرائق میں اشارہ ہے اور شرح اللباب میں بھی اسی کو ذکر کیا ہے اور حیلہ سے اُن (فقہا) کی مراد یہی صورت ہے ،اور پہلی صورت کے ذکر کرنے سے دوسری صورت کے کافی ہونے کی نفی نہیں ہوتی پس دونوں منصوص صورتوں پر عمل کیا جاسکتا ہے غور کرلیجئے۔ اور شیخ محمد طاہر سنبل نے کہاہے جس کو علامہ سندھی (مولانا عابد سندھیؒ) نے درمختار کے اس قول ھٰذہٖ حِیْلَۃٌ کی شرح میں نقل کیا ہے یعنی یہ حیلہ اس شخص کے لئے ہے جو حیلہ کو پختہ ومضبوط کرے اس طرح پر کہ اس کا قصدِ اول حلّ میں کسی جگہ کسی ضرورت کے لئے جانے کا ہو جیسا کہ مبسوط وغیرہ میں اس کی تصریح کی گئی ہے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد اس کا مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا قصد اس کو مضر نہیں ہے اھ۔ ۲؎