عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
میں اکثر واقع ہوتا رہتا ہے جو سمندر کے راستہ سے سفر کرتا ہے اور حج بدل کے لئے مامور ہے اور اس کا یہ سفر سال کے وسط میں واقع ہوتو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں احرام کے بغیر داخل ہونے کے لئے مشہور بندرگاہ جدہ کا ارادہ کرلے تاکہ اس کو حجِ بدل کا احرام باندھ کر طویل عرصہ تک احرام کی حالت میں نہ رہنا پڑے کیونکہ جو شخص حجِ بدل کے لئے مامور ہو اُس کو عمرہ کا احرام باندھنا جائز نہیں ہے ۶؎ یعنی اس لئے کہ جب اس نے عمرہ کرلیا پھر مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھا تو اُن کے قول میں وہ آمر کی مخالفت کرنے والا ہوگا جیسا کہ تاتار خانیہ میں محیط سے ہے ۷؎ اور نیز در مختار کے باب الجنایات (ص۔۳۱۲) میں جہاں یہ عبارت ہے کہ ’’ جو آفاقی احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے اس کے لے یہ حیلہ ہے ‘‘ اس مقام پر صاحبِ ردالمحتار علامہ شامی ؒ نے کہا ہے کہ یہ حیلہ مشکل ہے کیونکہ تو نے جان لیا ہے کہ اس کو میقات سے آگے بلااحرام جانا اس وقت تک جائزنہیں ہے جب تک کہ اس کا زمین حل میں کسی ضرورت کے لئے جانے کا ارادہ نہ ہو ورنہ ہر آفاقی جو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کاارادہ رکھتا ہے وہ حل میں داخل ہونے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ، اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ حل میں کسی ضرورت کے لئے جانے کی قید لگانے کا مقصد یہ ہے کہ میقات سے آگے بڑھتے وقت دخول ِ مکہ کا ارادہ نہیں ہونا چاہئے اورایسے ہی شخص کو مکہ مکرمہ میں بغیر احرام داخل ہونا جائز ہے جبکہ اس کے بعد اس کا ارادہ مکہ میں داخل ہونے کا ہوجائے جیسا کہ ہم پہلے شرح ابن الشلبی و ملّا مسکین سے بیان کرچکے ہیں پس معلوم ہوا کہ اس سے احرام ساقط ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ میقات سے آگے جاتے وقت صرف حل میں داخل ہونے کا قصد کرے، پھر علامہ شامیؒ نے اس کی تائید میں کافی و بدائع و لباب المناسک اور اس کی شرح وغیرہ کے