عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان مذکورہ امور میں سے کسی ایک کی ادائیگی کے ضمن میں حاصل ہوجائے گی یہ استحسان ہے اور قیاس یہ ہے کہ جب تک میقات پر واپس آکر اسی مخصوص نسک کی نیت سے احرام نہ باندھے جو اس پر بلااحرام دخولِ حرم سے واجب ہوا تھا تب تک وہ حج یا عمرہ اس کے ذمہ سے ادا نہیں ہوگا اور دم اس سے ساقط نہیں ہوگا اور یہ امام زفر کا قول ہے، اور اگر بلااحرام میقات سے گزرجانے کے بعد احرام باندھ لیا لیکن میقات پر واپس نہ آیا (یا افعالِ حج یا عمرہ شروع کرنے کے بعد واپس آیا یا افعالِ حج یا عمرہ شروع کرنے سے پہلے واپس آیا لیکن میقات پر آکر تلبیہ نہیں کہا ۴؎ ) تو اس سے دم ساقط نہیں ہوگا (جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے ،مؤلف) اور اگر اسی سال حج یا عمرہ کا احرام نہیں باندھا تو جب تک اسی حج یا عمرہ کی نیت سے احرام نہ باندھے جو اس پر بلا احرام داخلِ حرم ہونے کی وجہ سے لازم ہوا تھا وہ واجب اس کے ذمہ سے ادا نہیں ہوگا ۵؎ یعنی اس بارے میں فقہا میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب وہ سال گزرجائے جس میں وہ بلا احرام حدودِ حرم میں داخل ہوا تھا اس کے بعد وہ میقات کی طرف لوٹے اور وہاں سے فرض حج (ادا یا قضا یا حج نذر یا عمرہ نذر یا سنت یا مستحب) کا احرام باندھے تو جو حج یا عمرہ اس پر واجب ہوا ہے وہ اس کے ذمہ سے ادا نہیں ہوگا جب تک نیت میں اس کا تعین نہ کرے جو اس پر واجب ہوا ہے کیونکہ جب اس نے اس مبارک مقام کی تعظیم کاحق ادا نہیں کیا یہاں تک کہ وہ سال گزر گیا تو وہ اس حق کو فوت کرنے والا ہوگیا پس یہ حق اس کے ذمہ دین(قرض) ہوگیا اور اب وہ حق اصل اور مقصود بالذات ہوگیا جو اس کے علاوہ کسی اور نیت سے اد نہیں ہوگا ۶؎ اور اس صورت میں بالاتفاق اس سے دم بھی ساقط نہیں ہوگا جب تک خاص اسی واجب کی نیت سے احرام نہ باندھے ۷؎ پس اسی سال میقات کی طرف واپس جا کر حجِ فرض کا احرام باندھ لینے سے