عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حدودِ حل میں حرم سے قریب ہے اور بعض نے کہا کہ یہ وہ مسجد ہے جو حدودِ حل میں پہلی مسجد سے دور ہے اور بعض نے کہا کہ یہی اظہر ہے تنعیم کے بعد جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے۔ امام طحاوی ؒ نے اس کے برعکس اختیار کیا ہے جیسا کہ امام مالک و امام شافعی ؒ کا مذہب بھی یہی ہے ۲؎ جاننا چاہئے کہ تنعیم میں دو مسجدیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ کے نام سے مشہور ہیں اور اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ کونسی جگہ ہے جہاں سے خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے احرام باندھا تھا۔ اس بارے میں دو قول ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسجد بنی ہوئی ہے جو حدودِ حرم سے دوسری کی نسبت قریب ہے۔ ابن جریج دشنی بن صباح سے یہی منقول ہے اور اہلِ مکہ کے نزدیک بھی یہی مشہور و متعارف ہے جیسا کہ فاکہی نے ذکر کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسجد بنی ہوئی ہے جو حدودِ حرم سے پہلی کی نسبت دور ہے اور ایک بلند پشتہ کے قریب اس پشتہ سے نیچی جگہ میں ہے۔ اور شیخ محب الدین طبری نے کہا کہ یہی اظہر ہے اور ان دونوں مسجدوں میں سے ہر ایک میں پرانے پتھر ہیں جن پر کچھ لکھا ہوا ہے جس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اس جگہ سے احرام باندھا ہے اور احسن یہ ہے کہ ان دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق دی جائے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ اس جگہ سے احرام باندھا اور دوسری مرتبہ دوسری جگہ سے باندھا ا ور رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں یہ مساجد نہیں تھیں بلکہ بعد میں یہاں دونوں جگہ پر مساجد تعمیر کردی گئیں تاکہ حضرت عائشہ ؓ کے تنعیم میں احرام باندھنے کی جگہ کی علامت رہے جیسا کہ ابنِ جماعہ نے اپنی منسک میں کہا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان دونوں مسجدوں کے درمیان جدید گزر سے آٹھ سو بہتر گز کا فاصلہ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک کنواں ہے یہ دور کے فاصلہ