عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والی مسجد اور یہ کنواں ۶۴۵ھ میں تعمیر ہوئے اور قریب کے فاصلہ والی مسجد اس کے بعد دومرتبہ تعمیر کی گئی جیسا کہ المنسک المتوسط لمُلَّارحمہ اﷲ السندھی کے بعض شارحین نے بیان کیا ہے، اور جعرانہ ایک موضع ہے جو طائف کے راستہ میں مکہ معظمہ سے اٹھارہ میل کے فاصلہ پر ہے وہاں ایک مسجد ہے جو رسول اﷲ ﷺ کے احرام باندھنے کا مقام ہے یہ مسجد وادی کی پشت پر اس کنارہ پر واقع ہے جو مکہ مکرمہ کی طرف سے دور تر ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس وادی کو احرام کی حالت میں عبور فرمایا تھا اور وہاں ایک دوسری مسجد بھی ہے جو مکہ مکرمہ سے قریب تر ہے اس کو ایک قریشی شخص نے بنایا تھا اور اس کو مسجد مقرر کرلیا تھا یہ مسجد (جو مسجدِ جعرانہ کی بہ نسبت مکہ مکرمہ سے قریب ہے) رسول اﷲ ﷺ کے احرام باندھنے کی جگہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے ایسا گمان کیا ہے، تنعیم اور جعرانہ ارضِ حرم سے باہر ہیں ۳؎ وادی جعرانہ کے فضائل جو علامہ خجندی نے ذکر فرمائے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ یہاں سے تین سو انبیاء کرام علیہم السلام نے عمرہ کیا ہے اور مسجدِ خیف میں ستر انبیاء علیہم السلام نے نماز پڑھی اور جعرانہ کا پانی نہایت شیریں ہے، کہا جاتا ہے کہ پانی کی اس جگہ کو حضور انور ﷺ نے خود بہ نفسِ نفیس اپنے دستِ مبارک سے کھودا پس وہاں سے پانی جاری ہوا جس کو آنحضرت ﷺ نے خود بھی نوش فرمایا اور لوگوں کو بھی پلایا، اور بعض نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا عصا گاڑا تو اس جگہ سے پانی اُبل کر نکلا ۴؎ اہلِ حرم کے علاوہ جو دوسرے لوگ حدودِ حرم میں داخل ہوگئے خواہ وہ اقامت کی نیت نہ بھی کریں مثلاً صرف عمرہ کرنے والا یا حجِ تمتع کرنے والا آفاقی شخص تو یہ لوگ بھی اہلِ حرم کے حکم میں ہیں ۵؎ پس اہلِ مکہ سے مراد وہ شخص ہے جو حدودِ حرم میں داخل ہو، خواہ وہ مکہ مکرمہ میں رہتا ہو یا حدودِ حرم میں کسی اور جگہ رہتا