عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تنعیم سے احرام باندھنا افضل ہے ۱۰؎ یعنی احناف کے نزدیک مکی (یعنی اہلِ حرم) کا تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک عمرہ کااحرام جعرانہ سے باندھنا افضل ہے ۱۱؎ تنعیم حدِّحرم سے باہر حلّ کی حد میں مدینہ طیبہ کے راستہ پر مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے جو مسجدِ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے نزدیک ہے اور یہ مقام حلّ کے تمام مقامات میں مکہ مکرمہ سے زیادہ قریب ہے اور احناف کے نزدیک جعرانہ یادوسرے مقاماتِ حل کی بہ نسبت یہاں سے عمرہ کا حرام باندھنا افضل ہے اور جعرانہ جیم و عین کی زیر اور را کی تشدید کے ساتھ ہے اور زیادہ فصیح عین کے سکون اور را کی تخفیف یعنی بغیر تشدید کے ہے۔ اگر چہ نبی کریم ﷺ نے خود بنفس نفیس جعرانہ سے عمرہ کا حرام باندھا تھا لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کو ارشاد فرمایا تھا کہ وہ اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ تنعیم جائے تاکہ وہ وہاں سے عمرہ کااحرام باندھ لیں،اور احناف کے نزدیک قولی دلیل فعلی دلیل پر مقدم ہے لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک فعلی دلیل قولی دلیل سے اقویٰ ہے اس لئے ان کے نزدیک جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے ۱۲؎ نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ رسو ل اﷲ ﷺ کا جعرانہ سے احرام باندھنا بطریق قصد واقع نہیں ہوا بلکہ طائف سے واپسی کے وقت جعرانہ سے گزرتے ہوئے واقع ہوا تھا اس لئے بھی تنعیم پر اس کی افضیلت لازم نہیں آتی نیز امام محمد بن سیرین سے بطریق مرسل روایت کی گئی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے اہلِ مکہ کے لئے تنعیم کو میقات مقرر فرمایا ہے ،اس کو امام ابوداؤد نے مراسل میں روایت کیا ہے پس اس روایت سے بھی تنعیم کی افضلیت کو تقویت پہنچتی ہے کمالا یخفی ۱؎ پس عمرہ کا احرام تنعیم میں اس جگہ سے باندھنا افضل ہے جہاں سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھانے عمرہ کااحرام باندھا تھا۔ بعض نے کہا کہ یہ وہ مسجد ہے جو