عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳)بحری جہاز یلملم کی محاذات سے آگے جو جدہ کی طرف سفر کرتا ہے وہ تمام سفر آفاق میں ہے جب جہاز بڑے سمندر سے ساحلِ جدہ کا رُخ کرتا ہے اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب محاذاتِ میقات کس جگہ ہوگی، اس کے متعلق عام فقہا کا ارشاد یہ ہے کہ حقیقی محاذات کا علم ہونا مشکل ہے اس لئے اقرب مواقیت کی مسافت کا اعتبار کرلیا جائے یعنی جس جگہ سے مکہ کا فاصلہ دو مرحلہ ہو وہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوگا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جدہ سے مکہ مکرمہ کا فاصلہ دو مرحلہ ہے اسی لئے شیخ ابنِ حجر مکی ملاعلی قاری ، مخدوم ہاشم سندھی، اور ملا اخوند جان وغیرہ اکابر علما نے جدہ کو بحکمِ میقات قراردیا۔ اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ یلملم کی مسافت بھی مکہ مکرمہ سے دو مرحلہ پر ہے اور جدہ کی مسافت بھی ، اب رہا میلوں کا فرق سواحکام ِ شرعیہ کا مدار کسی جگہ بھی اس طرح کی تدقیقات پر نہیں ہے، مواقیت کے مسائل و احکام پر نظر کرنے سے یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ اس معاملہ میں اتنی تدقیق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔‘‘ حضرت مفتی صاحب موصوف قدس سرہ‘ کے نزدیک دلائلِ شرعیہ کاحاصل یہ ہے کہ مشرقی ممالک سے بحری جہازوں پر آنے والے حجاجِ کرام کے لئے محاذاتِ یلملم پر احرام باندھنا واجب نہیں بلکہ جدہ تک مؤخر کرنا جائز ہے جس طرح یلملم سے مکہ مکرمہ دو مرحلے پر ہے اسی طرح جدہ سے بھی دو مرحلے پر ہے اس لئے مسافت برابر ہونے کی وجہ سے جدہ ہی محاذاتِ یلملم قراردیا جائے گا اور مسافت کے تعین میں میلوں کی کمی بیشی کااعتبار نہیں کیا جائے گا۔ آخر میں حضرت مفتی صاحب موصوف رحمہ اﷲعوام کے لئے یہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’ایسے حالات میں اس مسئلہ میں علما کااختلاف رائے ہے، احتیاط اسی میں ہے کہ بحری جہاز میں یلملم ہی سے احرام باندھ لیں یاساحلِ جدہ پر اترنے سے پہلے احرام باندھ