عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کفارہ دم (قربانی) اور توبہ کرنا ہے یا پھر کسی میقات یا محاذاتِ میقات پر لوٹ کر احرام باندھنا ہے۔ فقہی تصریحات کے مطابق یہ حکم تمام آفاقی مسافر انِ حرم المحترم کے لئے ہے خواہ وہ خشکی کے راستہ سے اور محاذاتِ میقات سے مراد ہر وہ مقام ہے جس کا فاصلہ مکہ معظمہ سے اتنا ہو جتنا اس میقات سے مکہ معظمہ کا فاصلہ ہے ۔سفر کریں یا بحری راستہ سے، جس کی محاذات سے گزرنا ہے اس کے علاوہ محاذاتِ میقات کے جو معنی بھی بیان کئے گئے ہیں وہ شرعاً و عقلاً صحیح نہیں ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی منصوص میقات سے نہ گزرنے کی صورت میں کوئی سے دومیقاتوں کے درمیان کسی جگہ سے ضرور گزرنا پڑتا ہے اور وہ دونوں میقات مکہ مکرمہ سے مختلف فاصلہ پر واقع ہوں گے اس لئے فقہا نے واضح فرمادیا ہے کہ میقاتِ ابعد من مکہ کے محاذات سے احرام باندھنا افضل ہے اور اقرب میقات تک مؤخر کرنا جائز ہے اور اقرب میقات کی محاذات سے آگے احرام باندھے بغیر گزرنا ممنوع و موجبِ دم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ذاتِ عرق، قرن المنازل اور یلملم جو کہ مکہ مکرمہ سے دو دو مرحلہ عرفی پر واقع ہیں اگر ان کا فاصلہ میلوں وغیرہ سے متعین نہیں کیا جائے گا تو اقرب وابعد کا اصول بیکارہوجائے گا، فقہا کی عبارتوں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ جدہ حدودِ حِلّ میں واقع ہے اور یہ کہنا کہ جدہ یلملم کی محاذات پر واقع ہے کیونکہ یلملم اور جدہ دونوں مکہ معظمہ سے مرحلتین کے فاصلہ پر ہیں کسی طرح مسلّم نہیں ہے البتہ جدہ کا مرحلتین پر واقع ہونے کا فائدہ احرام کے جدہ تک مؤخر کرنے کے لے اس وقت ظاہر ہوگا جبکہ محاذات کا جاننے والا کوئی نہ ہو جس سے معلوم کرسکے اور علامت سے محاذات کا علم نہ ہوسکے اور اجتہاد وتحری سے بھی اس کے متعلق ظنِ غالب حاصل نہ ہوسکے پس ایسی صورت میں سمندر کے اس راستے سے آنے والے حجاج کے لئے جدہ سے احرام باندھنا جائز