عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لکھا گیا ہے۔ بے شک امام صاحب رحمہ اﷲسے روایت کیا گیا ہے کہ اس پر دم لازم ہوگالیکن امام صاحب سے ظاہر الروایت وہی ہے، وہی اوّل قول ہے (یعنی جو پہلے اوپر لکھا گیا ہے کہ اس بارے میں مدنی اور غیر مدنی میں کوئی فرق نہیں ہے) اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت کی گئی ہے کہ جب وہ حج کا اراد فرماتی تھیں تو ذوالحلیفہ سے احرام باندھتی تھیں اور جب عمرہ کا ارادہ فرماتی تھیں تو جحفہ سے احرام باندھتی تھیں، اور یہ بات معلوم ہے کہ حج وعمرہ کے میقات میں کوئی فرق نہیں ہے پس اگر جحفہ حج و عمرہ دونوں کے لئے میقات نہ ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ عمرہ کا احرام جحفہ سے نہ باندھ تیں پس آپ کے فعل سے معلوم ہوگیا میقات سے احرام مؤخر کرنے کی ممانعت میں آخری میقات کی قید ہے اور یہ حدیث کہ کوئی شخص کسی میقات سے اہرام باندھے بغیر نہ گزرے اس پر محمول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان مواقیت سے آگے نہ بڑھے اور نہر الفائق میں کہا ہے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ احرام باندھنے میں میقات سے تاخیر کرنے کی ممانعت میقات ِ اخیر کے ساتھ مقید ہے وتمامہ فیہ ۲؎ (یعنی آخری میقات سے آگے احرام کے بغیر جانا منع ہے، مؤلف) تنبیہ : جانناچاہئے کہ اب جحفہ کایقینی طور ر متعین کرنا ممکن نہیں رہا اس لئے کہ وہ ویران ہوچکاہے اور سوائے نامعلوم قسم کی نشانیوں کے اور کچھ باقی نہیں رہا، پس اب اس کو ترک کردیا گیا اور رابغ کو اس کی بجائے اختیار کرلیا گیا ہے، رابغ جحفہ سے پہلے نصف منزل یا اس کے قریب فاصلہ پر واقع ہے اس لئے لوگوں نے احتیاطاً رابغ سے احرام باندھنا اختیار کرلیا ہے، پس جس نے رابغ سے احرام باندھا اس نے جحفہ سے پہلے احرام باندھا اور اس کا میقات سے احرام باندھنے کا وجوب یقینی طور پر ادا