عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے جو دو مختلف روایتیں مروی ہیں جن میں سے ایک میں مجاوزتِ ذوالحلیفہ پر دم واجب ہوتا ہے اور دوسری روایت میں دم واجب نہیں ہوتا تو اس طرح سے دونوں روایتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے کہ دم واجب ہونے والی روایت کو مدنی پر محمول کیا جائے اور دم واجب نہ ہونے والی روایت کو غیر مدنی پر محمول کیا جائے اھ ۱؎ لیکن فتح القدیر میں منقول ہے کہ جب مدنی احرام کے بغیر جحفہ تک چلاجائے اور وہاں سے احرام باندھ لے تو کوئی مضائقہ نہیں اور افضل یہ ہے کہ وہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھے اور فتح القدیر ہی میں اس سے قبل کافی سے نقل کیا گیا ہے جو حاکم صدر شہید (محمد بن محمد المتوفی ۳۳۴ ھ) کی کتاب ہے جس میں امام محمد ؒ کا کلام جمع کیا گیا ہے، اور کافی کی عبارت یہ ہے ’’ جس نے اپنے میقات سے احرام کے بغیر تجاوز کیا پھر وہ دوسرے میقات پر آیا اور اس سے احرام باندھا تواس کے لئے کافی ہے اور اگر وہ اپنے میقات سے احرام باندھتا تو یہ میرے نزدیک زیادہ بہتر ہوتا اھ‘‘ پس فتح القدیر کی پہلی عبارت اس بارے میں صریح ہے اور دوسری روایت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مدنی پر کچھ جزا لازم نہیں آتی، پس اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ مدینہ کے بارے میں امام صاحب ؒ کا قول جو اوپر گزرچکا ہے اتفاقی ہے احترازی نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بارے میں ظاہر الروایت میں مدنی اور غیر مدنی میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ہدایہ کا یہ قول کہ ’’ ان پانچوں مواقیت کے مقرر کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ احرام باندھنے میں ان مواقیت سے تاخیر کرنا منع ہے لیکن ان سے تقدیم بالا جماع جائز ہے۔‘‘ اس قول پر فتح القدیر میں اعتراض کیا ہے کہ اس بنا پر یہ لازم آتا ہے کہ اہلِ مدینہ کو احرام باندھنے میں ذوالحلیفہ سے تاخیر کرنا جائز نہیں ہے حالانکہ اوپر اس کے خلاف