عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غرض کی وجہ سے اور طرف کو جانا پڑے جیسے پاکستان سے بعض لوگ یمن کے راستہ اور بعض طائف سے اور بعض کویت ،بصرہ ، بغداد، بحرین وغیرہ کے راستہ سے جاتے ہیں توجو میقات ان کے راستہ میں آئے گا وہی اُن کا میقات ہوگا اب اس کو خواہ مخواہ نہ چھوڑنا چاہئے خوب سمجھ لیجئے ۱۲؎ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر دوسرا میقات پہلے کی نسبت مکہ مکرمہ سے دور ہوتو بدرجہ اولیٰ اس سے دم ساقط ہوجائے گا ۱۳؎ اور اس سے دم ساقط ہونے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اپنے اس مخصوص میقات کی طرف واپس جائے جس سے وہ آگے بڑھ گیا ہے کیونکہ میقات سے مقصود حرمِ محترم کی تعظیم ہے اور وہ شرع شریف کے مقرر کئے ہوئے مواقیت میں سے کسی بھی میقات سے احرام باندھنے پر حاصل ہوجاتی ہے خواہ وہ قریب کا میقات ہو یا دور کا، اس بارے میں دونوں کا حکم برابر ہے البتہ پہلے میقات سے احرام باندھنا مستحب ہے اور اسی طرح بدائع میں امام ابو حنیفہؒ سے روایت کیا گیاہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اہلِ مدینہ کے علاوہ دوسرے لوگ مدینہ منورہ کے پاس سے گزریں اور وہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھے بغیر گزرجائیں اور جحفہ تک پہنچ جائیں تو ان کو جحفہ سے احرام باندھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہ ہے کہ وہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اس لئے کہ جب وہ پہلے میقات تک پہنچ گئے تو ان کو اس کی حرمت کی محافظت لازم ہوگئی پس اب اس کو ترک کرنا ان کے لئے مکروہ ہے انتہیٰ اور قدوری نے بھی اپنی شرح میں اسی کی مانند ذکر کیا ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے اس قول میں غیر اہل ِ مدینہ فرمانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم اہلِ مدینہ کے لئے نہیں ہے یعنی ان کو اپنے اُس میقات سے جو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے لئے مقرر فرمایا ہے یعنی ذوالحلیفہ سے احرام باندھے بغیر آگے جانا جائز نہیں ہے اور امام صاحب