عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی کتابوں میںنہیں ملا لیکن تحری سے قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے یہی حکم ظاہر ہوتا ہے۔ مناسک النووی میں بھی اسی طرح ہے اور یہ ہمارے قواعد کے بھی خلاف نہیں ہے ۶؎ میقات کے متعلق معلوم کرنے کے لئے کافر کا قول معتبر نہیں ہے مثلاً جہاز میں انگریز یا کافر بتائے کہ اس جگہ سے میقات کی محاذات ہے تو ا س کا قول معتبر نہیں البتہ اگر جہاز کے ملازمین میں سے ایک مسلمان عادل شخص وہاں آمد و رفت رکھنے والا اور جاننے والاخبر دے تو اس کا قول معتبر ہے ۷؎ (۹) اگر مکہ مکرمہ پہنچنے کے لئے کسی شخص کو دو میقاتوں سے گزرنا پڑے تو ابعد میقات سے احرام باندھنا افضل ہے اور اگر اُس نے دوسرے یعنی اقرب میقات تک احرام کو مؤخر کیا تو امام ابو حنیفہؒ سے ظاہر الروایت میں اس پر کچھ لازم نہیں آتا ۸؎ اور جو شخص اپنے میقات سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھ جائے پھر وہ دوسرے میقات پر آئے اور وہاں سے احرام باندھے تو جائز ہے (اور ظاہر الروایت کے مطابق اس پر کوئی جزا لازم نہیں ہے) لیکن اس کو اپنے میقات سے احرام باندھنا افضل ہے اور یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو اہلِ مدینہ نہیں ہیں اس لئے کہ اہلِ مدینہ کو اپنے میقات کے ساتھ زیادہ خصوصیت ہے ۹؎ پس اگر کسی نے اپنی گزرگاہ کے میقات سے احرام کے بغیر گذر کر کسی دوسرے میقات سے احرام باندھنا تو اس سے دم (قربانی) ساقط ہوجائے گا اگرچہ وہ دوسرا میقات پہلے میقات کی نسبت مکہ مکرمہ سے زیادہ قریب ہو مگر اس کو پہلے میقات ہی سے احرام باندھ لینا افضل ہے ۱۰؎ بلا ضرورت اپنے راستہ کے میقات کو ترک کرکے احرام باندھنے کے لئے دوسرے میقات پر جانا مکروہ ہے کیونکہ اپنے شہر اور اپنے راستہ کے میقات سے احرام باندھنا سنت ہے اور اس شخص نے سنت کو ترک کردیا ہے ۱۱؎ لیکن اگر کسی ضرورت اور