عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگراس کے وطن اور مکہ مکرمہ دونوں کی طرف وہاں سے مدتِ سفر کا فاصلہ ہے اور وہ عورت جنگل میں ہے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ مکہ مکرمہ چلی جائے یااپنے وطن لوٹ جائے خواہ اس کے ساتھ محرم ہو یا نہ ہو اور اپنے وطن کی طرف لوٹنا اولیٰ ہے اور اس کے دائیں یا بائیں جانب کے شہروں اور گاؤں کا اعتبار نہیں ہے بلکہ جو اس کے راستہ میں اس کے سامنے ہے اس کا اعتبار ہوگا حتیٰ کہ اگر دائیں یا بائیں جانب مدتِ سفر سے کم فاصلہ پر کوئی گاؤں یا شہر ہوتو اس کو راستہ سے ہٹنا اور اس میں جانا لازمی نہیں ہے اھ واﷲ اعلم ۱؎ ان تمام صورتوں میں شرط یہ ہے کہ عورت نے احرام نہ باندھا ہو لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی اور اس پر عدت واجب ہوئی تو اب وہ عورت عدتِ طلاق کی وجہ سے محصرہ ہے خواہ حج فرض کا احرام باندھا یا نفلی وغیرہ کا اور خواہ وہ عورت مقیمہ ہو یا مسافرہ اور مکہ میں ہو یا مکہ سے مسافتِ سفر کے فاصلہ پر ہو یا اس سے کم ہو اور اگرچہ اس کے ساتھ محرم بھی ہو اس پر وہیں عدت گزارنا لازم ہے اس لئے کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے سے روک دی گئی ہے اور اس پر واجب ہے کہ اپنی طلاق کی جگہ میں ہی رات گزاراکرے (پس اگر وہ مکہ مکرمہ میں ہے تو عرفات پر نہ جائے بلکہ عمرہ کے افعال بجالاکر احرام سے حلال ہوجائے اور چاہے تو وقوفِ عرفات کاوقت ختم ہوجانے کے بعد عمرہ کے افعال بجالاکر احرام کھول دے) اور اگر سفرِ حج کے راستہ میں خاوند کی موت کی وجہ سے عدتِ موت واقع ہوگئی ہے تو اگر اس جگہ سے مکہ معظمہ تک شرعی مسافتِ سفر کا فاصلہ ہے (اور کوئی محرم ساتھ نہیں ہے )اور اس کے شہر کا فاصلہ مسافتِ سفر سے کم ہے یا مسافتِ سفر سے زیادہ ہے لیکن اس عورت کو اس جگہ یا اس کے قریب قیام کرنا ممکن ہے تو وہ بھی محصرہ ہے (پس اگر وہاں رُک کر عدت گزارسکتی ہے تو وہاں عدت