عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سفر میں خاوند نے اس کو طلاق دیدی اگر وہ طلاق رجعی ہے تو عورت اپنے خاوند سے ہر گز جدا نہ ہو بلکہ خاوند کی متابعت کرے خواہ وہ وطن کی طرف لوٹے یا حج کا سفر جاری رکھے اورخاوند کے لئے افضل یہ ہے کہ طلاق سے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلے اور اگر وہ بائن طلاق ہے تو خاوند اجنبی شخص کی مانند ہے ۸؎ (لہٰذا عورت کو خاوند سے جُدا رہنا چاہئے) پس اگر اس کے شہر کی طرف مدتِ سفر یعنی تین روز کے سفر سے کم فاصلہ ہوا ور مکہ مکرمہ کی طرف مدتِ سفر یعنی تین روز یا زیادہ کی مسافت ہے تو اس کو اپنے وطن کی طرف لوٹنا واجب ہے اور اگر اس کے برعکس ہے یعنی مکہ مکرمہ کی طرف فاصلہ مدتِ سفر سے کم ہے تو مکہ مکرمہ کی طرف چلی جائے اور اگر دونوں طرف مدتِ سفر سے کم فاصلہ ہے تو اس کو اختیار ہے خواہ مکہ مکرمہ چلی جائے یا اپنے شہر کو واپس ہوجائے، اس صورت میں وہ خواہ شہر میں ہو یا جنگل میں اور خواہ محرم ساتھ ہو یا نہ ہو اس حکم میں برابر ہے مگر اس کو اپنے شہر کی طرف لوٹنا افضل ہے اور اگر دونوں طرف مدتِ سفرکی مسافت ہے اور وہ عورت اس وقت کسی شہر میں ہے تو بلا خلاف اس کو وہاں سے بغیر محرم کے نکلنا جائز نہیں ہے (اور محرم کے ساتھ نکلنے میں اختلاف ہے، مؤلف) پس وہ اپنی عدت پوری ہونے تک وہیں قیام کرے اور وہاں سے نہ نکلے اگرچہ اس کے ساتھ محرم بھی ہو، یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور صاحبین کے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر محرم موجود ہو تو اس کے ساتھ جانا جائز ہے ورنہ نہیں، اور اگر عورت کسی گاؤں یا جنگل میں ہواور وہاں اس کا نفس ومال محفوظ و مامون نہ ہوتو اس کو امن کی جگہ چلے جانا چاہئے اور اس وقت تک وہاں سے نہ نکلے جب تک اس کی عدت نہ گزرجائے۔امام صاحب کے نزدیک اگرچہ اس کا محرم موجود ہو یہی حکم ہے اور صاحبین کااس میں خلاف ہے ۹؎ اور منسک الفارسی میں ہے کہ