عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گزارے) اور اگر ایسا نہیں ہے یعنی مکہ معظمہ شرعی مسافتِ سفر سے کم فاصلہ پر ہے تو وہ عورت محصرہ نہیں ہے (اسکو وہیں رُک جانا ضروری نہیں ہے چاہے کوئی محرم ساتھ بھی نہ ہو) محصرہ بعدتِ طلاق و محصرہ بعدتِ موت میں یہی فرق معلوم ہوتا ہے کہ عدتِ طلاق کی صورت میں مکہ معظمہ سے مسافت ِ سفر پر ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اورعدتِ موت کی صورت میں مکہ معظمہ سے مسافتِ سفر پرہے تو محصرہ ہے ورنہ نہیں ۲؎ لیکن اس مسئلہ میں اس وقت بہت ہی مشکل پیش آئے گی جبکہ عورت اپنے خاوند کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ہو اور اس کا خاوند اس کو طلاق دیدے اور وہ عورت مکہ مکرمہ میں ہی رہے وقوفِ عرفات پر نہ جائے۔ اس صورت میں دوسرے سال تک وہاں رہنا اوراگر گھر چلی جائے تو پھر واپس آکر حج کرنا اوروہاں رہنے کی صورت میں سال بھر کا نفقہ موجود ہونا اور واپسی کے وقت محرم کی رفاقت کا حاصل ہونا وغیرہ بہت سی مشکلات کاسامنا ہوگا تو یہ عورت بھی اسی طرح معذور سمجھی جانی چاہئے جیساکہ بوادی(جنگل ) وغیرہ میں جہاں اقامت مشکل ہو تو مکہ معظمہ چلے جانے کا جواز ہے تو اب اس حالت میں عرفات پر حج کرنے کے لے جائے تو عذر ہوسکتا ہے ورنہ اس کو نہایت ہی مشکل پیش آئے گی، اگر افعالِ عمرہ بجالاکر حلال ہوگئی تو پھر حج کی قضا لازم ہوگی پھر اس کے لئے وہاں رہنا یا واپس آنا نہایت دشوار ہوگا واﷲ اعلم۔ کسی معتبر کتاب میں اس کے متعلق جواز کی گنجائش نظر سے گزری تھی لیکن اب بہت تلاش کرنے سے بھی نہیں ملی غالباً کبیر میں کہیں عبارت تھی ۳؎ (محصرہ کے مسائل احصار کے بیان میں آئیں گے انشاء اﷲ العزیز ۔مؤلف) فائدہ : نیز جاننا چائیے کہ شرائطِ حج کی قسمِ دوم کی تمام شرطیں مختلف فیہا ہیں جیسا کہ بیان ہوچکا ہے، پس بعض فقہا نے تصحیح کی ہے کہ یہ سب وجوبِ حج کی شرطیں ہیں اور