عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس صورت میں خاوند پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہے کیونکہ عورت نے اپنے فعل سے اپنے نفس کو خاوند سے روک لیا ہے ۹؎ جاننا چاہئے کہ جب عورت حج کرے تو خاوند پر نفقہ واجب ہونے کے مسئلہ کی چند صورتیں ہیں وہ یہ ہیں ۔ اگر عورت اپنے خاوند کے گھر رخصت ہونے سے پہلے خاوند اور محرم کے بغیر فرض حج ادا کرے تو وہ عورت ناشزہ(نافرمان) ہے پس خاوند پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہے اور اگر وہ خاوند کے بغیر کسی محرم کے ساتھ حج کرے تو سب کے نزدیک خاوند پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہے کیونکہ تسلیم (خاوند کے سپرد کرنا ) واجب ہونے کے بعد اس نے اپنے آپ کو تسلیم سے روکا پس وہ ناشزہ (نافرمان) کی مانند ہوگئی اور اگر وہ اپنے خاوند کے گھر رخصت ہوچکی ہے پھر اس نے خاوند کے علاوہ کسی محرم کے ساتھ حج کیا تو امام ابو یوسفؒ نے کہا ہے کہ خاوند پر اس کا نفقہ واجب ہے اور امام محمدؒ نے کہا ہے کہ خاوند پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہے ۔ سراج الوہاج میں ہے کہ یہی اظہر ہے پھر جب امام ابو یوسفؒ کے قول کی بنا پر خاوند پر عورت کا نفقہ واجب ہوگیا تو قاضی اس کے لئے صرف اقامت کا نفقہ فرض کرے گا حالتِ سفر کا نفقہ نہیں کیونکہ خاوند پر صرف حضر (اقامت ) کا نفقہ واجب ہوتا ہے لیکن زائد مشقت جس کی عورت کو سفر میں ضرورت پیش آئے گی مثلاً کرایہ وغیرہ تو عورت کے ذمہ ہے خاوند پر لازم نہیں ہے کیونکہ یہ خرچہ حج فرض کی ادائیگی کے لئے ہے اور حج فرض کی ادائیگی عورت پر ہے اس لئے یہ زائد خرچ بھی عورت کے ذمہ ہوگا خاوند کے ذمہ نہیں اور اگر عورت نے حج کے بعد مکہ مکرمہ میں بلاضرورت قیام کیا تو اس کا ان دنوں کا نفقہ خاوند کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا کیونکہ وہ عورت اس میں معذورہ نہیں ہے پس وہ نافرمان کی مانند ہوگئی اگر عورت آنے جانے کے زمانہ کے بقدر تین ماہ کا خرچہ طلب کرے تو یہ خاوند