عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر لازم نہیں ہوگا لیکن وہ اس کو ایک ماہ کا نفقہ دے گا اور جب وہ واپس لوٹ آئے گی تو باقی خرچہ لے لیگی کیونکہ خاوند پر حالتِ اقامت کا نفقہ واجب ہے حالتِ سفر کا نہیں، عورت کے لئے حالتِ اقامت کا نفقہ ماہ بماہ واجب ہوتا ہے اور یہ تمام بیان امام محمد ؒ کے قول پر متفرع نہیں ہوتا یہ سب اس وقت ہے جبکہ خاوند اس کے ساتھ سفر نہ کرے لیکن اگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ حج کا سفر کرے تو بلا خلاف اس پر بیوی کا نفقہ واجب ہوگا اس لئے کہ مطلق تسلیم کا ہونا پایا جاتا ہے کیونکہ خاوند کو اس سے راستہ میں وطی و دیگر استمتاع کا انتفاع ممکن ہے پس وہ اپنے مکان میں مقیمہ کی مانند ہوگئی ۱؎ صرف حضر (اقامت کے دنوں ) کا نفقہ اس پر واجب ہوگا سفر کے دنوں کا نہیں اور کرایہ بھی واجب نہیں ہوگا پس حضر میں جو کھانے کی قیمت ہوگی وہ دیکھی جائے گی سفر کی قیمت کا لحاظ نہیں ہوگا۔ علامہ شامی کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ ا س کی وجہ سے سفرِ حج پر جائے لیکن اگر خاوند خود اپنی بیوی کو لے کر گیا تو سفر و حضر کانفقہ وکرایہ وغیرہ سب خرچہ خاوند کے ذمہ لازم ہوگا ۲؎ اگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ سفرِ حج پر نہ جائے تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک پھر بھی یہی حکم ہے امام محمدؒ نے کہا کہ اس صورت میں عورت کا نفقہ خاوند پر نہیں ہے کیونکہ عورت اپنے فعل سے اپنے نفس کو روکنے والی ہے اور کتب متون کا یہی مذہب ہے ۳؎ (جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، مؤلف) لیکن اگر عورت نفلی حج کرے اور اس کا خاوند اس کے ساتھ نہ ہوتو بالاجماع اس کا نفقہ خاوند پر نہیں ہے اور اگر اپنے خاوند کے ساتھ نفلی حج کرے تو خاوند پر اقامت (حضر) کے دنوں کا نفقہ واجب ہے سفر کے دنوں کا نفقہ واجب نہیں ہے ۴؎ اسی طرح اگر عورت اپنے خاوند کے