عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں کوئی محرم نہ ہو تو (فرض حج ادا کرنے کے لئے) اس پر واجب ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرے جو اس کے ساتھ حج کرے ۶؎ پس اس مسئلہ میں دو قول ہیں اور وہ دونوں قول اس اختلاف پر مبنی ہیں کہ محرم کا ہونا وجوبِ حج کی شرط ہے یا وجوبِ ادا کی، فتح القدیر میں اس کو اختیار کیا ہے کہ یہ اور سلامتی بدن وراستہ کا امن وجوبِ ادا کی شرطیں ہیں پس اگر بیماری یا راستہ کا خوف مانع ہو یا عورت کا خاوند یا کوئی محرم موجود نہ ہو تو اس پر حج کرانے کے لئے وصیت کرنا واجب ہے اور محرم نہ ہونے کی صورت پر نکاح کرنا واجب ہے پہلے قول یعنی وجوبِ حج کی شرط ہونے کی صورت میں اس پر ان میں سے کچھ بھی واجب نہیں ہے جیسا کہ بحرالرائق میں ہے اور نہر الفائق میں یہ ہے کہ بدائع میں پہلے قول کی تصحیح کی ہے اور نہایہ میں قاضی خاں کا اتباع کرتے ہوئے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور فتح القدیر نے اسی کو اختیار کیا ہے اھ ۔علامہ شامی کہتے ہیں کہ لباب میں اس پر جزم کیا ہے کہ اس پر نکاح کرنا واجب نہیں ہے حالانکہ اس نے محرم یا خاوند کا ہونا وجوبِ ادا کی شرط قرار دیا ہے ۔ جو ہرہ میں اور ابن امیر الحاج نے مناسک میں اسی کوترجیح دی ہے جیسا کہ مصنف نے اپنی کتاب منحہ میں کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کرلینے سے بھی اس کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ جب خاوند اس کا مالک ہوگیا تو اب اس کو اختیار ہے کہ وہ اس کے ساتھ نہ جائے اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے پرقادر نہیں ہوگی اور بعض دفعہ خاوند عورت کے ساتھ موافقت نہیں کرتا پس عورت کو اس سے ضرر پہنچتا ہے بخلاف محرم کے کہ اگر وہ اس عورت سے موافقت کرتا ہے تو عورت اس پرخرچ کرتی ہے اور اگر وہ موافقت نہیں کرتا تو وہ اپنا نفقہ دینا روک لیتی ہے اور حج کو ترک کردیتی ہے اھ فافہم ۷؎ پس جو بیوہ عورتیں محرم کے بغیر حج کو جانا