عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۶) امام کرمانی ؒ نے کہا کہ اگر اپنے مال ونفقہ میں سے کچھ رشوت یا چونگی ٹیکس وغیرہ دے کر راستہ میں امن مل جاتا ہے تو ہمارے بعض فقہا نے کہا کہ یہ بھی عذر ہے اور اس پر حج فرض نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ یہ عذر نہیں ہے اور اس پر حج فرض ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ اس سے زبردستی ظلماً ٹیکس لیا جائے گا، صاحبِ قنیہ و مجتبیٰ نے کہا ہے کہ اسی پر اعتماد ہے اور منہاج میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے امام ابن ہمامؒ نے جو کچھ کہا اس کا حاصل یہ ہے کہ اس قسم کی صورتوں میں رشوت لینے والا گنہگار ہوگا دینے والا گنہگار نہیں ہوگا (یعنی دفعِ ظلم کے لئے رشوت دینا جائز ہے ) اور یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اس کے لئے مضطر ہو اور مذکورہ صورت بھی اسی قسم کی ہے کیونکہ وہ اپنے ذمہ سے فرض حج ادا کرنے کے لئے مضطر ہے پس وہ دوسرے کے گنہگار ہونے کی وجہ سے اپنا فرض ترک نہ کرے اور اس قول کی بنا پر حوائجِ اصلیہ سے زائد مال پر قادر ہونے کے لئے وہ خرچہ بھی زادِراہ میں شمار ہوگا جو اس کو ظالمانہ ٹیکس، رشوت وغیرہ میں دینا پڑے گا ۱۰؎ قید میں نہ ہونا یا بادشاہ کی طرف سے ممانعت و خوف نہ ہونا : (۱)تیسری شرط یہ ہے کہ وہ قید نہ ہو یا بادشاہ کی طرف سے لوگوں کو حج کے لئے جانے کی ممانعت و خوف نہ ہو پس کفایہ میں ہے کہ بادشاہ وقت سے خوف کرنے والا مانع کے پائے جانے کی وجہ سے مریض کی مانند ہے ۱؎ اور اس شرطِ وجوبِ حج یا شرطِ وجوبِ ادا ہونے کا وہی اختلاف ہے جو شرطِ صحتِ بدن میں بیان ہوچکا ہے اور صحیح قول کی بنا پر یہ بھی وجوبِ ادا کی شرط ہے۔ ابن ہمامؒ نے اسی کواختیار کیا ہے ،پس محبوس اور بادشاہ سے خائف، مریض کی مانند ہیں ان دونوں پر خود حج ادا کرنا فرض نہیںہے البتہ صاحبین کے نزدیک ان دونوں پر فرض ہے کہ کسی دوسرے شخص سے