عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جانا واجب نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج کرانا واجب ہے (وہ بھی اس شرط سے کہ راستہ کا خوف اس کے مرنے کے قریب تک رہے) یا مرنے کے قریب حج کرانے کی وصیت کردے اسی پر فتویٰ ہے اور اسی پر اعتماد ہے ۳؎ اور اگر راستہ میں سمندر ہوا ور اس میں جہاز ہوتو حج فرض نہیں ہوگا ۴؎ اور اگر مکہ مکرمہ کے راستے میں سمندر ہو اور کوئی خشکی کا راستہ بھی ہو جو پُرامن ہو تو ان لوگوں پر حج قطعاً فرض ہوگا خواہ سمندر کے راستہ میں جہاز وغیرہ ہو یا نہ ہو اور خواہ سمندر کا راستہ پُر امن ہو یا نہ ہو ۵؎ اور ظاہر یہ ہے کہ سلامتی کے غالب گمان کے ساتھ غلبۂ خوف کے نہ پائے جانے کا بھی اعتبار کیا جائے گا حتی کہ اگر بار ہا لوٹ مار واقع ہونے اور جنگ وجدال کرنے والوں کے غلبہ کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر خوف غالب ہو یا لوگوں نے سنا ہو کہ کوئی گروہ راستہ میں حائل ہوتا اور لوٹ مارکرتا ہے اور اس کو شوکت و غلبہ حاصل ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس گروہ کے مقابلے میں کمزور محسوس کرتے ہیں تو ان پر حج واجب نہیں ہوگا ۶؎ (۴) اگر راستہ میں امن وسلامتی اور ہلاکت و خوف دونوں برابر درجے کے ہوں تو فقہا نے اس صورت کا حکم بیان نہیں فرمایا منسک کبیر میں ہے کہ اصحابِ فقہ کے کلام کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ مساوات کی صورت میں اس پر حج فرض نہیں ہوگا اھ ۷؎ (۵)اور امن کے موجود ہونے کا اعتبار اس شہر والوں کے حج پر روانگی کے وقت سے ان کے واپس آنے تک کا وقت ہے اس سے قبل یا اس کے بعد کا اعتبار نہیں ۸؎ یعنی خواہ دوسرے دنوں میں راستہ پُر امن نہ ہو اگر حج کے اُن دنوں میں پُر امن ہو جبکہ اس شہر کے لوگ حج پر روانہ ہوئے ہوں تو حج واجب ہوگا ۹؎