عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حج کرائیں یا مرتے وقت حج کرنے کی وصیت کریں ۲؎ لیکن محبوس کے متعلق ظاہریہ ہے کہ اگر اس کو اس لئے قید کیا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کا حق ادا نہیں کرتا حالانکہ وہ اس حق کے ادا کرنے پر قادر ہے تو یہ قید اس کے لئے عذر نہیں ہے اور حج کی ادائیگی کا واجب ہونا اس قید کی وجہ سے اس سے ساقط نہیں ہوگا ۳؎ (۲) یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ عذر یعنی قید میں ہونا یا بادشاہ کی طرف سے ممانعت کا ہونا اگر اس کی موت تک قائم رہے تب عذر ہے ورنہ اس عذر کے زائل ہونے کے بعد اس شخص کو خود حج کرنا واجب ہوگااس میں ایک قید یہ بھی ہے کہ وہ شخص اس عذرسے پہلے حج پر قادر ہو اور پھر عاجز ہوگیا ہو، ورنہ اس کودوسرے شخص سے حج کرانا یا مرتے وقت وصیت کرنا ظاہر المذہب میں امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک واجب نہیں، اس اختلاف کی بنا پر جس کا ذکر پہلے (یعنی سلامتی بدن کے بیان میں )ہوچکا ہے ۴؎ (۳)اور شمس الاسلام رحمہ اﷲ نے نقل کیا ہے کہ بادشاہ اور جو اس درجہ کے امرائے ذیشان ہیں وہ سب اس حکم میں محبوس کے ساتھ ملحق ہیں پس بادشاہ اور امرائے ذیشان اگر اتنا مال رکھتے ہوں جو لوگوں کے ان حقوق سے زیادہ ہو جو اُن کے ذمہ ہیں اور وہ حج کے لئے کافی ہوسکے تو اُن کے مال میں حج واجب ہوگا ان کے نفس(ذات) پر واجب نہیں ہوگا یعنی ان کو خود حج کرنا واجب نہیں ہوگا بلکہ اپنے مال سے کسی دوسرے شخص کو بھیج کر حج کرانا واجب ہوگا اس لئے کہ اگر بادشاہ اپنی مملکت سے باہر نکل جائے گا تو اس کا ملک خراب ہوجائے گا اور لوگوں میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس کو اس حالت میں قتل کردیا جائے اور یہ امکان بھی غالب ہے کہ کوئی اور بادشاہ اس کو اس کی حدودِ مملکت میں داخل نہ ہونے دے اور س طرح فتنہء عظیم واقع ہوکر عام