عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
فوت ہوجائے لیکن اگر راستہ کا امن بحال ہونے کے بعد فوت ہوا اور اس میں وجوبِ حج کے تمام شرائط پائے جاتے ہیں تو وصیت کرنا بالاتفاق اس پر واجب ہے ۹؎ (۲) امام ابواللیث ؒ نے کہا کہ اگر راستہ میں غالب و اکثر طور پر امن وسلامتی ہے یعنی اکثر قافلے صحیح سلامت پہنچ جاتے ہیں اور بعض اتفاقیہ طور پر لُٹ بھی جاتے ہیں تو راستہ امن والا سمجھا جائے گا اور حج فرض ہوگا۔ اور اگر سلامتی غالب طور پر نہ ہو بلکہ اکثر قافلے لُٹ جاتے ہوں تو حج فرض نہیں ہوگا اور اسی پر اعتماد ہے ۱۰؎ (۳)اور جب سمندر کے راستہ سے سوار ہوکر سفر کئے بغیرچارہ کار نہ ہوتو حج کی فرضیت ساقط ہونے میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ سمندر وجوبِ حج کا مانع ہے اور اصح یہ ہے کہ اس کا حکم بھی خشکی کے راستے کی مانند ہے، اور کرمانی نے کہا ہے کہ سمندر کے راستہ میں جہاں سے سوار ہونے کی عام عادت ہو اگر اس جگہ سے سمندر کے راستہ میں غالب طور پر سلامتی ہو یعنی اکثر جہاز صحیح سالم پہنچ جاتے ہوں تو راستہ امن والا سمجھا جائے گا اور حج واجب ہوگا اور اگر اکثر جہاز ڈوب جاتے ہوں تو راستہ امن والا نہیں ہوگا اور حج واجب نہیں ہوگا اور یہی اصح ہے اور سیحون و جیحون وفرات و نیل اور دجلہ نہریں (دریا) ہیں سمندر نہیں ہیں ۱؎ پس یہ بالاتفاق وجوب حج کے مانع نہیں ہیں ۲؎ حاصل یہ ہے کہ جس شخص کو کسی ظالم یا دشمن یا درندہ یا ڈوبنے یا کسی اور چیز مثلاً چور ڈاکو رہزن یا ظالم یا راستہ روکنے والے کا خوف ہوتو اس پر خود حج کرنا فرض نہیں ہے بلکہ اپنے مال سے اپنی طرف سے نائب بھیج کر حج کرانا فرض ہے خواہ راستہ خشکی کا ہو یا سمندر کا، اور راستہ کے امن کے غالب طور پر ہونے کا اعتبار ہے پس اگر غالب طور پر امن ہو تو خود حج کرنا فرض ہے اور اگر قتل و ہلاکت کا خوف غالب ہوتو اس کو خود حج پر