عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امام حسنؒ کی ایک روایت بھی یہی ہے بظاہر تحفہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس میں صرف اسی صورت کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح اسبیجابی اور بدائع کے نزدیک بھی یہی مختار ہے محقق ابن الہمام نے بھی فتح القدیر میں اسی کو قوی کہا ہے اور اسی طرف گیا ہے کہ صحتِ بدن و جوبِ ادا کی شرط ہے پس حاصل یہ ہے کہ ظاہر المذہب میں یہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک وجوبِ حج کی شرط ہے پس اگریہ لوگ زاد و راحلہ پرقادر ہوں تو اُن پر کسی دوسرے شخص سے حج کرانا یا مرتے وقت وصیت کرنا واجب نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک یہ وجوبِ ادا کی شرط ہے پس اگر یہ لوگ زاد و راحلہ پر قادر ہوں اور اُٹھا کر سواری پر بٹھانے اور مناسک تک پکڑ کرلے جانے والا بھی ہو تو ان پر حج فرض ہے لیکن اُن کے اوپر خود حج کرنا فرض نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے شخص سے حج کرانا یا مرتے وقت وصیت کرنا فرض ہے اور اگر و ہ زاد وراحلہ پر قادر ہو لیکن مناسک تک لے جانے والے کا خرچہ اور آدمی میسر نہیں ہے تو ان پر سب کے نزدیک حج فرض نہیں ہے پس اس اختلاف کا فائدہ فی الحال کسی دوسرے سے حج کرانے اور فی المآل وصیت کرنے کے وجوب کے بارے میں ظاہر ہوتا ہے ۵؎ اگر ان لوگوں نے تکلیف اُٹھا کر خود حج اداکرلیا تو ان کے ذمہ سے بالا تفاق حج کا فرض اُترجائے گا حتیٰ کہ اگر وہ اس کے بعدتندرست ہوگئے تو اب ان کو دوبارہ حج کرنا فرض نہیں ہے ، صاحبین کے نزدیک تو اس کی وجہ ظاہر ہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ادائیگی وجوب کے بعد ہے اور امام صاحب کے نزدیک یہ حکم اس لئے ہے کہ یہ لوگ وجوب کے اہل ہیں اور ان سے دفع حر ج کے لئے شرع نے حج ساقط کردیا ہے پس جب انہوں نے خود تکلیف اٹھا کر حج ادا کرلیا تو فرض کی جگہ واقع ہوگیا جیساکہ فقیر اگر پیدل چل کر حج کرلے اور اس کے بعد مالدار ہوجائے تو فرض ادا