عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حج کو قرار دیا ۱۰ ؎ پس جو نفع رہبانیت(تارک الدنیا ہونے ) سے حاصل ہوسکتا تھا وہ بلادشواری اضعافاً مضاعفہ ہوکر امتِ محمدیہﷺ کو نصیب ہو افللّٰہ الحمد ۱۱ ؎ (۲۳) حج ان متبرک مقامات کی زیارت کا ذریعہ اور برکات حاصل کرنے کا موقع ہے جہاں لاکھوں عشاق نے ایڑیاں اور ماتھے رگڑ رگڑ کر جان دیدی ۱۲ ؎ (۲۴) سفر سے ایک طرف تو اخلاق کی جلا اور صفائی ہوتی ہے دوسری طرف بدن کی صحت کے لئے معین ہے ،حضور انورﷺ کا ارشادہے ’’سَافِرُوا تصحوا ‘‘ ۱ ؎ (ترجمہ: سفر کرو صحت یاب ہوگے) تبدیل آب وہوا صحت کے لئے معین ومددگار ہے حج کا سفراس کا بہترین ذریعہ ہے ۲ ؎ (۲۵) حج اس عبادت کی یادگار و بقا ہے جو حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر ہر مذہب و ملت میں رہی ہے ۳ ؎ (۲۶) حج کوئی نئی چیز نہیں ہے قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے جاکر حج کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتے اس بیت کا طواف آپ سے ہزار سال پہلے سے کرتے ہیں۔ نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے پیدل چل کر چالیس حج کئے تمام انبیاء علیہم السلام نے بھی حج کیا ہے اور زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حج کرتے تھے لیکن انہوں نے بہت سے مفاسد اور خلافِ شرع امور اس میں شامل کرلئے تھے، شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے ان سب کی اصلاح کردی اور اصل عبادت کو قائم رکھا تاکہ یہ قدیم عبادت قائم رہے اور شعائر الٰہیہ کی عظمت و شوکت کا اظہار ہوتا رہے ۴ ؎۔