عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۰) ’’ مَنْ مَاتَ فِیْ ھٰذَا الْوَجْہِ حَاجًّااَوْ مُعْتَمِرًا لَمْ یُعْرَضْ وَلَمْ یُحَاسَبْ وَقِیْلَ لَہ‘ اُدْخُلِ الْجَنَّۃَ ، ابو نعیم فی الحلیہ وغیرہ ورواہ البیھقی بلفظ مَنْ مَاتَ فِیْ طَرِیْقِ مَکَّۃَ لَمْ یُعْرَضْہُ اﷲَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَمْ یُحَاسَبْہُ‘‘ ۴؎ (ترجمہ:حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے نکلے اور راستہ میں مرجائے تو نہ اس کی (عدالتِ قیامت میں ) پیشی ہوگی اور نہ حساب کتاب ہوگا اور اس کو کہہ دیا جائے گا جنّت میں داخل ہوجا۔ اس کو ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کیا ہے اور بیہقی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص مکہ کے راستہ میں (جاتے ہوئے یا واپسی میں ) مرجائے اس کی قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پیشی نہیں ہوگی اور اس کا حساب کتاب نہیں ہوگا)۔ کنز العمال میں بھی اسی مضمون کی حدیث ہے(مؤلف) (۱۱) ’’وقال الحسن البصری رضی اﷲ عنہ مَنْ مَاتَ عُقَیْبَ رَمَضَانَ اَوْ عُقَیْبَ غَزْوٍ اَوْبِعَقْبِ حَجٍّ مَّاتَ شَھِیْدًا ۵ ؎ (ترجمہ:اور حضرت حسن بصری ؓ نے فرمایا جو شخص رمضان المبارک کے فوراً بعد مرگیا یا جہاد (غزوہ) کے فورًا بعد یا حج کے بعد مرگیا وہ شہید ہوکر مرا۔) یہ تینوں حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں وہ گناہوں سے پاک صاف ہوچکا ہوگا۔(مؤلف) (۱۲) ’’ عن ابن مسعود وجابر رضی اﷲ عنہ رفعاہ تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجَِّ وَالْعُمْرَۃِ فَاِنَّھُمَا یُنَفِّیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یُنَفِّیْ الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ ، للنسائی والترمذی والبزار ۶ ؎ (ترجمہ:حضرت ابنِ مسعود و جابر ؓ سے مرفوع روایت ہے کہ پَے در پَے حج و عمرہ کرو(یعنی قِران کرویا حج کرکے عمرہ بھی کرو یا عمرہ کرکے حج بھی کرو) کہ یہ دونوں فقراور گناہوں کواس طرح دُور کرتے ہیں جیسا کہ آگ کی بھٹی لوہا، سونا اور چاندی کے میل دور کرتی ہے) حج کی مصلحتیں اور حکمتیں : موجودہ زمانہ میں باوجودِ کثرتِ جہل علم کا دعویٰ ہے اور ہر شخص اپنی عقل پر نازاں ہے جو چیز اپنی سمجھ میں نہ