عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لئے ہے ۱ ؎۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ آیت حج کی فرضیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پہلا قول اظہر ہے، اور کئی حدیثیں اس بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رُکن ہے اور اسلام کا ستون اور اس کی بنیاد ہے اور تمام امتِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے ۲؎۔ فائدہ : اس آیتِ کریمہ میں بہت سی تاکیدیں جمع ہوگئی ہیں۔اول یہ کہ جملہ اسمیّہ خبریہ سے اس کے وجوب پر دلالت کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ لِلّٰہِ کا لام ایجاب کے لئے ہے جیسا کہ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے۔ سوم ’’عَلیَ النَّاسِ ‘‘ میں علیٰ کا لفظ نہایتِ لزوم پر دلالت کرتا ہے یعنی بیت اﷲ کا حج کرنا لوگو ں کی گردنوں پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لازمی حق ہے جس کو ادا کئے بغیر اس فرض سے سبکدوش اور اس کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ چہارم اس آیتِ مبارکہ میں پہلے ’’اَلنَّاس‘‘ کا ذکر فرمایا پھر اس کے بجائے ’’مَنِ اسْتَطَاعَ‘‘ کا ذکر فرمایا جس میں دو طرح کی تاکید ہے ایک لفظ کو بدل دینا جس میں مراد کو مکرر بیان کرنا اور اس پر متنبہ کرنا پایا جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں ابہام کے بعد وضاحت اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔پنجم یہ کہ حج نہ کرنے والے کو ’’مَنْ کَفَرَ‘‘ سے تعبیر فرمایا اور ’’مَنْ لَمْ یَحُجَّ‘‘ نہیں فرمایا ،اس میں حج کے وجوب کی تاکید اور اس کے تارک پر وعید ہے، اسی لئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے لئے کوئی ظاہر ی اور واقعی مجبوری حج سے روکنے والی نہ ہو یا ظالم بادشاہ کی طرف سے رکاوٹ نہ ہو یا ایسا شدید مرض نہ ہو جو حج سے روک دے پھر وہ بغیر حج کئے مرجائے تو اس کو اختیار ہے کہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ اس روایت کو دارمی نے روایت کیا ہے جیسا کہ مشکوٰۃ شریف اور اتحاف میں ہے اور یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے جیسا کہ علامہ