عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیوطیؒ نے الدر میں اس کے طرق کی تفصیل بیان فرمائی ہے اور اسی قسم کی تاکید اور تارک پر وعید نماز کے بارے میں بھی حدیث شریف میں آئی ہے اور وہ حدیث یہ ہے ’’ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ‘‘ (ترجمہ:جس نے جان بو جھ کر نماز ترک کی پس اس نے کفر کا کام کیا) اور آیت ِ مذکورہ میں حج کے ترک کو کفر کے نام سے اسی حیثیت سے ذکر فرمایا ہے کہ یہ کافروں کا فعل ہے۔ تفسیر در منثور میں ہے کہ ابنِ ابی شیبہ و عبدبن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ جو شخص تندرست ہو اور اتنے پیسے والا ہو کہ حج کو جاسکے اور پھر بغیر حج کئے مرجائے توقیامت میں اس کی پیشانی پر کافر کالفظ لکھا ہوا ہوگا پھر انہوں نے یہ آیت ’’وَمَنْ کَفَرَ‘‘آخر تک پڑھی،اور ابن ابی شیبہؒ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ جو شخص مرگیا اور مالدار ہونے کے باوجود اس نے حج نہیں کیا وہ قیامت کے روز اس حال میں اٹھے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔ اگرچہ ائمہ اربعہ کے نزدیک حج نہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا جب تک کہ حج کا انکار نہ کرے لیکن اسکے تارک کے لئے قرآن مجید و احادیث میں بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ششم اس آیت ِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی استغنا اور بے نیازی کا ذکر فرمایا ہے جو اس کے تارک کے حق میں نہایت غصہ و ناراضگی و رسوائی پر دلالت کرتا ہے۔ ھفتم اور استغنا بھی سارے جہاں سے ذکر فرمایا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ صرف اس شخص سے بے نیاز ہے اس میں دلیل ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے تو اس شخص سے بالضرور بے نیاز بے پروا ہ ہے اور نیز یہ استغنائے کامل پر دلالت کرتا ہے جس سے اور بھی بہت بڑی ناراضگی و غصہ کا اظہار ہوتا ہے ۳ ؎۔