عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور دورہ میں شبہ پڑگیا تو گمان غالب پر عمل کرے اور اگر کوئی گمان غالب بھی نہ ہو تو نہ اس کو حیض ٹھہراوے نہ طہر، بلکہ احتیاط پر عمل کرے اور ہر نماز کے واسطے غسل کرے اور جن چیزوں سے حیض والی عورتیں بچتی ہیں مثلاً وطی، طواف، مسجد میں جانا، قرآن پڑھنا وغیرہ ان سے بچتی رہے پس فرض اور واجب اور سنتِ مؤکدہ پڑھے اور صحیح قول کے موافق نفل نہ پڑھے اور قرآن صرف بقدر فرض اور واجب کے پڑھے، اور صحیح یہ ہے کہ فرص کہ دونوں رعکتوں میں چھوٹی سورتیں یا تین آیتیں پڑھے اور فرض کی پچھلی دونوں رکعتوں میں سورئہ فاتحہ بھی پوری پرھے، اور اگر صرف بعض میں شبہ ہو مثلاً طہر میں اور حیض کے داخل ہونے میں شبہ ہو تو ہر نماز کے لئے وضو کرے اور اگر طہر میں اور حیض سے فارغ ہونے میں شک ہو تب استحسان یہ ہے کہ ہر نماز کے واسطے وضو کرے اور صواب یہ ہے کہ ہر نماز کے واسطے غسل کرے اور یہی اصح ہے اور رمضان شریف میں کسی روز روزہ کا افطار نہ کرے (۱) لیکن اس مہینے کے گذرنے کے بعد حیض کے دنوں کی قضا اس پر واجب ہوگی پس اگر یہ بات معلوم ہو کہ حیض اس کا رات کو شروع ہوتا تھا تو اس پر بیس روزے کی قضا آئے گی (۲) اور اگر یہ معلوم ہو کہ دن میں حیض شروع ہوتا تھا تو احتیاطاً بائیں دن کی قاضا آئے گی (۳) اور اگر دن رات کے شروع ہونے میں بھی شبہ ہو تو اکثر مشائخ کا یہ قول ہے کہ بیس دن کی قضا آئے گی اور بعض کے نزدیک بائیس دن کے روزے سے احتیاطاً قضا کرے خواہ روزے ملا کر رکھے (۴) یا جدا جدا رکھے (۵) یہ اس وقت ہے جب اس کا دورہ معلوم ہو مثلاً یہ بات کہ ہر مہینے میں آتا ہے اور اگر دورہ بھی معلوم نہیں تو اگر یہ بات معلوم ہو کہ حیض اس کا رات سے شروع ہوتا تھا تو احتیاطاً پچیس دن کی قضا کرے (۶) خواہ ملا کر رکھے یا جدا جدا، اور اگر یہ بات معلوم ہو