عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جائز ہے، پھر بھی ان سب صورتوں میں مستحب یہ ہے کہ بغیر غسل کے جماع نہ کیا جائے۔ اگر کسی کو اقل مدتِ حیض سے کم یعنی ایک یا دو دن خون آکر بند ہوگیا تو غسل واجب نہیں ہے، وضو کرکے آخری وقت میں نماز پڑھے لیکن ابھی صحبت کرنا درست نہیں۔ پس اگر پندرہ دن گذرنے سے پہلے خون آجائے تو اب معلوم ہوگا کہ وہ حیض کا زمانہ تھا حساب سے جتنے دن حیض کے ہوں ان کو حیض سمجھے اور اب غسل کرکے باقی ایام کی نمازیں پڑھے اور اگر پورے پندرہ دن بیچ میں گذر گئے اور خون نہیں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ استحاضہ تھا سو ایک دن یا دو دن خون آنے کی وجہ سے جو نمازیں نہیں پڑھیں اب ان کی قضا پڑھنی چاہئے۔ ایک مرتبہ عادت کے بدلنے سے امام ابو یوسفؒ کے نزدیک عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے اگر دو پورے طہر کے درمیان میں خون آئے اور زیادہ دن آنے میں یا کم دن آنے میں یا عادت سے پہلے آجانے میں یا بعد کو آجانے میں یا دونوں باتوں میں عادت کے خلاف ہو تو عادت وہی مقرر ہو جائے گی، حقیقی خون ہو یا حکمی یہ جب ہے کہ وہ دس دن سے زیادہ نہ ہو جائے اور اگر زیادہ ہو تو جو اس کی معمولی عادت ہے وہ حیض ہوگا اور اس کے سوا استحاضہ ہوگا اور عادت نہ بدلے گی اور یہی حکم نفاس کا ہے پس نفاس عادت کے خلاف دنوں تک اور چالیس دن سے زیادہ نہ ہوا تو عادت بدل جائے گی، اگر نفاس کی چکھ عادت مقرر ہے اور کبھی چالیس دن سے زیادہ ہوگیا تو جس قدر عادت کے دن ہیں وہی نفاس سمجھے جائیں گے برابر ہے کہ معمولی عادت خون پر ختم ہو یا طہر پر، یہ امام ابو یوسفؒ کے نزدیک ہے۔ جس عورت کی عادت مقرر ہے اب اس کا خون بند نہیں ہوتا اور حیض کی عادت کے دنوں میں اور مکان میں یعنی یہ کہ حیض مہینے کے کون سے عشرہ میں ہوتا تھا