عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کہ حیض دن میں شروع ہوتا تھا تو اگر ملا کر روزہ رکھے او احتیاطاً بتیس دن کی قضا کرے (۷) اور اگر جدا جدا رکھے تو اڑتیس دنے کی (۸)اور جو یہ بھی نہیں معلوم تو اگر ملا کر روزے رکھے تو بھی بتیس دن کی قضا کرے اور اگر جدا جدا رکھے تو اڑتیس دن کی قضا کرے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ رمضان تیس دن کا ہو، اور جو کم کا ہو تو سینتیں دن کی قضا کرے (۹) کی قضا کرے۔ عادت والی عورت جب ولادت کے بعد خون دیکھے اور اپنی عادت بھول جائے تو اگر خون اس کا چالیس دن سے زیادہ نہ ہو اور چالیس دن کے بعد پورا طرہ ہوا تو جس قدر نمازیں چھوٹی ہیں ان کا اعادہ نہ کرے گی اور اگر خون چالیس دن سے زیادہ ہوگیا یا زیادہ نہ ہوا لیکن چالیس دن کے بعد طہر پندرہ دن سے کم ہوا تو اس پر یہ لازم ہے کہ اپنے دل میں سوچے اگر گمان غالب عادت کے دنوں کا ہو تو اسی کو عادت سمجھے اور اسی پر عمل کرے اور اگر کچھ گمان غالب نہ ہو تو احتیاطاً چالیس روز کی سب نمازیں قضا کرے۔ کسی عورت کو اسقاط ہوا اور اس میں شک ہے کہ اس کے بعد اعضا کی خلقت ظاہر ہوئی تھی یا نہیں اور خون بند نہیں ہوتا تو اگر اس کے حیض کی عادت کے جو دن ہیں ان کے اول میں اسقاط ہوا ہے تو بقدر عادت کے دنوں تک بطور شک کے نماز پڑھے اس لئے کہ یا اس کو طہر ہے یا نفاس پھر جب تک حیض کی عادت کے دن ہیں تب تک بالیقین نماز چھوڑ دے اس لئے کہ اس کو نفاس ہے یا حیض ہے پھر اگر وقت اسقاط سے چالیس دن پورے ہوچکے تو غسل کرے اور جب تک طہر کی عادت کے دن ہیں بالیقین نماز پڑھے اور اگر پورے نہیں تو جس قدر چالیس دن کے اندر ہیں تب تک بطور شک کے نماز پرھے اور اس کے بعد بطور یقین کے نماز پڑھے پھر ہمیشہ یہی کرتی رہے اور اگر بعد ایام حیص کے اسقاط ہوا تو وہ اسی وقت سے جب تک اس کے حیض کی عادت کے