عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ بھی قضا نہیں پڑھنی پڑے گی، اور یوں کہیں گے کہ عادت بدل گئی اس لئے یہ سب دن حیض کے ہوں گے، اور اگر گیارہیں دن (یعنی دس دن رات سے ذرا بھی اوپر) خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن تھے اور باقی سب استحاضہ ہے پس گیارہوں دن نہائے اور (عادت کے دن چھوڑ کر باقی) سات دن کی نمازیں قضا پڑھے اور اب نمازیں نہ چھوڑے۔ اگر رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کچھ کھانا درست نہیں، شام تک رومہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہ ہوگا بلکہ اس کی بھی قضا رکھنیپڑے گی اور اگر رات کو پاک ہوئی اور پورے دس دن رات حیض آیا تو اگر اتنی ذرا سی رات باقی ہے جس میں ایک دفعہ اللہ اکبر بھی نہ کہہ سکے تب بھی صبح کا روزہ واجب ہے اور اگر دس دن سے کم حیض آیا اور اتنیرات باقی ہے کہ پھرتی سے غسل تو کرلے گی لیکن غسل کے بعد ایک مرتبہ بھی اللہ اکبر نہ کہہ سکے گی تو بھی صبح کا روزہ واجب ہے یہاں نماز اور روزہ کے حکم میں سوائے تحریمہ کے اور کچھ فرق نہیں ہے کہ نماز میں تحریمہ کی گنجائش معتبر ہے اور رومۃ میں نہیں، پس اگر اتنی رات تو تھی لیکن غسل نہیں کیا تو روزہ کی نیت کرے اور صبح کو غسل کرلے اور جو اس سے بھی کم رات ہو یعنی غسل بھی نہ کرسکے تو صبح کا روزہ جائز نہیں ہے لیکن دن کو کچھ کھانا پینا بھی درست نہیں بلکہ سارے دن روزہ داروں کی طرح رہے پھر اس کی قضا بھی کرے، نفاس کے لئے بھی یہی احکام ہیں پس اگر چالیس دن آکر بند ہوا ہو تو خون بند ہوتے ہی بغیر غسل کے، اور اگر چالیس دن سے کم آکر بند ہوا ہو اور عدات سے بھی کم ہو تو عادت گزرجانے کے بعد، اور اگر عادت کے موافق بند ہو تو غسل کے بعد یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد جماع وغیرہ