عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں اگر چہ وہ نہالے جب تک اس کی عادت کے دن پورے نہ ہو جائیں لیکن اس پر بطور احتیاط کے غسل اور نماز و روزہ لازم ہے اور اس کو نماز کے آحری وقتِ مستحب تک تاخیر کرنا واجب ہے مثلاً اگر عدات پانچ دن کی تھی اور خون چار ہی دن میں آکر بند ہوگیا تو نہا کر نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے لیکن جب تک پانچ دن پورے نہ ہو جائیں تب تک مجامعت کرنا درست نہیں، شاید کہ پھر خون آجائے۔ اقل مدت کے بعد اگر دس دن سے کم میں (عورت کی عادت پر) خون بند ہوا تو اگر وہ عورت اہل کتاب سے ہے تو اس سے جماع کرنا فی الحال حلال ہوگیا اس لئے کہ وہ احکام شرع کے مخاطب نہیں اور غسل اس پر واجب نہیں اور اگر عورت مذکورہ مسلمان ہے تو جماع حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کرے، اور اس کو نماز کے آحری مستحب وقت تک تاخیر کرنا مستحب ہے، مثلاً اگر عشا کے وقت میں منقطع ہوا تو اس وقت تک تاخیر کرے کہ جس کے بعد غسل کرکے آدھی رات سے پہلے نماز پڑھ لے اس کے بعد مکروہ ہے اور اگر اس نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا تو امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک اس سے وطی حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھ لے یہی صحیح ہے، اصح یہ رہے کہ بالاجماع یہی حکم ہے، پھر اگر پانی ملا تو (غسل سے پہلے) قرآن پڑھنا حرام ہو جائے گا اور وطی حرام نہ ہوگی یہی اصح ہے۔ جس عورت کو پہلی ہی دفعہ حیض آیا ہو اور دس دن سے کم میں وہ پاک ہو جائے یا عادت والی عورت اپنی عادت سے کم دنوں میں پاک ہو جائے تو وضو اور غسل میں اس قدر تاخیر کرے گی کہ نماز کے لئے وقت مکروہ نہ آجائے۔ کسی عورت کو تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینے میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہوچکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو بھی غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے، اگر دس دن رات پورے ہونے پر یا اس سے کم میں