عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۸۔ خون بند ہونے کے وقت غسل واجب ہوتا ہے اگر اکثر مدتِ حیض جو دس دن ہیں گزر چکی تو غسل سے پہلے بھی وطی حلال ہے یعنی اس کو وطی کے لئے غسل واجب نہیں خواہ پہلے ہی بار حیض آیا ہو یا عادت والی عورت ہو اور مستحب یہ ہے کہ جب تک وہ غسل نہ کرے وطی نہ کرے اور اس کو قبل غسل وطی کرنا مکروہ تنزیہی ہے، اور اگر حیض کا خون دس دن سے کم میں بند ہو جائے تو جب تک وہ نہانہ لے یا تیمم جائز کرنے والے عذر کی حالت میں تیمم نہ کرے یا اس کے ذمے ایک وقت کی نماز قضا نہ ہو جائے یعنی اس پر نماز کا آخری وقت اس قدر نہ گزرے کہ جو تحریمہ (یعنی ایک مرتبہ اللہ اکبر کہنا) اور غسل و کپڑے پہننے کا کافی ہو تب تک اس سے وطی جائز نہیں اس لئے کہ اس پر نماز اسی وقت واجب ہوتی ہے کہ جب نماز آحری وقت اس قدر موجود ہو کہ نہا کر اور کپڑے پہن کر ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ سکے پس اس نماز کی قضا پڑھے گی اور اس سے وطی بھی جائز ہو جائے گی، اگر حیض چاشت کے وقت منقطع ہوا اور اس نے نہ غسل کیا اور نہ تیمم، تو تاوقتیکہ ظہر کا وت نہ گزر جائے اس سے وطی حلال نہیں، اس لوے کہ زوال سے پہلے کا وقت مہمل وقت ہے، اسی طرح اگر طلوع آفتاب سے اتنے قبل حیض منقطع ہوا کہ وہ غسل اور تحریمہ پر قادر نہیں تو تاوقتیکہ ظہر کا وقت نہ نکل جائے اس سے وطی حلال نہیں۔ اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو نماز معاف ہے اور اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ صرف ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ سکتی ہے اور نہالے کی گنجائس نہیں تو بھی نماز واجب ہوجاتی ہے اس کی قضا پڑھنی چاہئے۔ پورے وقت کا گزرنا یعنی خون نماز کے اول وقت میں بند ہونا اور اسی بند ہونے کی حالت میں تمام وقت گذر جانا شرط نہیں۔ اگر خون عادت کے دنوں سے کم میں بندہو تو اس سے وطی کرنا بھی حلال