عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یا ہڈی ٹوٹ گئی ہو سب کا حکم ایک ہے، اگر اکثر جبیرہ پر (آدھے سے زیادہ) مسح کرلیا تو کافی ہے اسی پر فتویٰ ہے۔ آدھے جبیرہ یا اس سے کم پر بالا جماع مسح جائز نہیں۔ اگر فصد کھلوانے والے نے پٹی پر مسح کیا پھا ہے پر مسح نہ کیا تو کافی ہے اسی پر فتویٰ ہے۔ پٹی کی دونوں گرہوں کے درمیان میں جو ہاتھ یا کہنی یا بدن کی کوئی اور جگہ کھلی رہ جاتی ہے اس پر بھی مسح کرنا کافی ہے، یہی اصح ہے کیونکہ اس کے دھونے میں پٹی تر ہو کر زخم کو نقصان پہنچنے کا خوف ہے اور اس پر فتویٰ ہے، اگر زخم اچھا نہیں ہوا اور بغیر اس کے جبیرہ گر پڑے تو دھونا لازم نہیں اور مسح بھی باطل نہیں ہوگا، اور اگر اچھا ہونے کے بعد گرے یا زخم اچھا ہو جائے اور ابھی پٹی نہ گرے تو مسح باطل ہوگا اور خاص اس جگہ کا دھونا واجب ہوگا (اور یہ جب ہے کہ پٹی کا کھولنا ضرر نہ کرے پس اگر ضرر کرے مثلاً زخم اچھا ہوگیا اور پانی اس کو ضرر نہیں کرے گا لیکن پٹی اس طرح چپکی ہے کہ گوشت سے جدا کرنے میں تازگی زخم کا احتمال ہے تو اس صورت میں مسح باطل نہ ہوگا) اور اگر نماز میں گرا، یا مقام اچھا ہوگیا تو اسی جگہ کو دھو کر نماز کو نئے سرے سے پڑھے، وضو کیا اور دوا لگی ہوئی تھی اس کے اوپر پانی بہا لیا پرھ اس جگہ کے چاھا ہوجانے کے بعد دوا گر گئی تو دھونا لازم ہوگا اور اگر بغیر اچھا ہوئے گر گئی تو دھونا لازم نہ ہوگا، اگر ناخن ٹوٹ جائے اور اس پر دوا لگائی جائے اور اس کا چھڑانا نقصان کرتا ہو، اگر ہوسکے تو اس کے اوپر پانی بہائے اگر اس پر قادر نہ ہو تو اس کے اوپر مسح کرے اور اگر مسح بھی نقصان کرتا ہو تو اس کو چھوڑ دے یعنی عذر کی وجہ سے دونوں ساقط ہوگئے۔ اعضا پھٹے ہوئے ہوں (یعنی بوائیاں پھٹی ہوں) اگر ہوسکے تو ان کے شگافوں پر پانی بہادے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو ان پر مسح کرے اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو ان کو چھوڑ دے اور ان کے آس پاس دھولے یہی