عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غسل کا تیمم بدستور باقی ہے مزید کرنے کی ضرورت نہیں۔ پنجم جب کہ دونوں میں سے جس ایک کو چاہے کرسکتا ہے تو اس کا حکم سوم کی مانند ہے یعنی خشک حصہ کو دھولے کیونکہ جنابتِ اغلط ہے لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ اس کو وضو کے تیمم سے پہلے خشک حصہ کا دھونا لازمی ہے تاکہ وہ پانی کا نہ پانے والا ہو جائے (اور یہ روایت امام محمد سے ہے اور یہی اصح ہے) اور ایک روایت کے مطابق اس کو اختیار ہے (پس اگر پہلے وضو کا تیمم کرلے پھر دھوئے تو جائز ہے اور یہ امام ابو یوسفؒ کی روایت ہے) اگر غسل میں اس کی پیٹھ کا کوئی حصہ خشک رہ گیا اور وضو کرنے میں بعض اعضا کا دھونا بھول گیا اور پانی ان دونوں میں سے ایک کے لائق ہے تو ان دونوں میں سے جس میں چاہے اس پانی کو صرف کرے لیکن اعضائے وضو میں صرف کرنا بہتر ہے۔ مسافر بے وضو ہے اور کپڑے بھی اس کے درم سے زیادہ نجس ہیں اور اس کے پاس پانی اس قدر ہے کہ ان دونوں میں سے ایک کے لئے کافی ہے تو پہلے اس سے نجاست دھووے اور پھر حدث کے لئے تیمم کرے اور اگر پہلے تیمم کرے پھر نجاست دھوئے تو تیمم دوبارہ کرے اس لئے کہ اس نے جب تیمم کیا تھا تب وہ اسے پانی پر قادر تھا جس سے وضو کرسکتا تھا اور اگر اس پانی سے وضو کیا اور نجس کپڑوں سے نجاز پڑھی تو نماز ہو جائے گی مگر وہ اس میں گنہگار ہوگا۔ جس عذر کی وجہ سے تیمم جائز ہوا تھا جس وہ عذر دور ہو جاتا ہے تو تیم ٹوٹ جاتا ہے، تیمم جائز ہونے کے اسباب (پانی سے دور ہونا، خوفِ مرض، خوفِ دشمن، خوفِ پیاس، اور پانی نکالنے کے لئے اسباب کا نہ ہونا) علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے ایک عذر میں شامل نہیں ہوسکتا اس لوے پہلی اجازت بالکل ختم ہو جائے گی اور دوسری اجازت کا تیمم دوبارہ کرے۔ مثلاً مسافر نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا اسی حالت میں اس کو ایسا مرض ہوگیا جس